24 نومبر کی صبح سے نکلے قافلے 48 گھنٹے بعد بالآخر اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے تھے، علی امین گنڈا پور کے علاوہ بشریٰ بی بی کی انٹری اس بار صورتحال کو یکسر مختلف رنگ دے رہی تھی۔
محترمہ کی فائنل کال سے پہلے پس پردہ رہنماؤں کے ساتھ ہوئی گفتگو ہو یا کال سے ایک دن پہلے کا ویڈیو پیغام، محسوس ہو رہا تھا کہ گویا بیگم صاحبہ اس بار کچھ کر گزرنے کا مشن لیے اپنے شوہر نامدار اور اپنی جماعت کے لیے ایک خاص جذبے کے ساتھ میدانِ عمل میں اُتر چکی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’فائنل کال‘ سے ’پسپائی‘ کی رات تک، یہ سب کیا ہوا؟Node ID: 882217
-
فائنل کال کا ڈراپ سین، تحریک انصاف سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟Node ID: 882225
پارٹی قیادت بھی ان کی ولولہ انگیزی اور حکمت عملی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر چکی تھی۔ روانگی سے پہلے قیادت سے حلف لینا ہو یا پھر ملک بھر کے ہر ایم پی اے یا ایم این سے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ویڈیو پیغامات تک کی ترسیل کا عہد ہو، محترمہ فرنٹ پر لیڈ کر رہی تھیں۔
گو کہ پارٹی کی دستیاب قیادت ان کے سیاسی کردار کی نفی کرتی رہی لیکن وہ اپنے اعلانات اور اقدامات سے سیاسی ہو چکی تھیں۔
بہرحال ہم بھی وہیں موجود تھے، دیکھا کہ تحریک انصاف کی پنجاب سمیت دیگر صوبوں کی قیادت یکسرغائب تھی۔ اِکا دُکا سرکردہ ناموں کے علاوہ نامی گرامی ٹاک شوز کی زینت بننے والے تمام عہدیدار ڈھونڈنے سے بھی نہ مل پائے۔
بی بی اور گنڈا پور کے ہمراہ آیا بھرپور قافلہ البتہ اٹک پل سے رُکاوٹیں عبور کرتا اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ ترنول ہو یا 26 نمبر چونگی، سنگجانی ہو یا پھر دیگر داخلی راستے، یہ قافلہ ہر طرح کی رُکاوٹیں عبور کرتا اسلام آباد کے ڈی چوک کی جانب گامزن رہا۔
اس بیچ محترمہ اور گنڈا پور کی حکمت عملی بھی خوب تھی۔ کارکنوں کو دیدار کرواتے، جذبہ بڑھاتے، حلف لیتے آگے کی جانب بڑھتے رہے۔ ایک موقع پر تو محترمہ نے فرمایا کہ وہ ’ڈی چوک سے جانے والی آخری شخص‘ ہوں گی۔
ملک بھر کی پولیس یہاں دارالحکومت میں طلب کی گئی، رینجرز اور دیگر سہولیات بھی سرکار کے ساتھ ہمہ وقت دستیاب تھیں۔ موبائل نیٹ ورک کا بیڑہ غرق پہلے ہی سے ہوچکا تھا۔
اور پھر کیا ہوا؟ الحاج ایم اسماعیل کے لائے بلے کے طویل قامت نشان کے ساتھ پی ٹی آئی کے سپورٹرز ڈی چوک پہنچنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
یہاں دیکھا تو جانا کہ یہ افراد قیادت کے بغیر اس اہم ’مائل سٹون‘ تک پہنچے تھے۔ یہاں انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، انہیں کچھ گھنٹوں بعد چند سو میٹر واپس دھکیل دیا گیا۔
سر شام بلیو ایریا، ڈی چوک، چائنا چوک اور متصل علاقوں کی بتیاں گُل کر دی گئیں، مارکیٹیں بازار اور دفاتر تک خالی کروا لیے گئے۔ خبر تھی کہ رات گئے کریک ڈاؤن کا پلان ہے لیکن 12 بجنے سے پہلے ہی مظاہرین کو اسی علاقے میں چاروں طرف سے گھیر لیا گیا، منتشر کرنے کے لیے تمام فورسز نے ایکشن کیا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اسی ایکشن کی وجہ سے درجنوں افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہیں، سرکار البتہ ایسی کسی بھی خبر کی تردید کر رہی ہے۔ (مناسب ہوگا کہ اگر پی ٹی آئی فوراً سے پہلے مارے جانے والوں کے مکمل کوائف جاری کرے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرے تاکہ حقیقت عوام کے سامنے آئے۔)
اس آپریشن کے بیچ پی ٹی آئی کے باہر بیٹھے ایک اہم رہنما کے توسط سے جانکاری ملی کہ صورتحال کشیدہ ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ انتظامیہ بی بی اور گنڈاپور کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تاکہ ورکرز کا مورال ڈاؤن ہو اس لیے وہ فوراً دونوں شخصیات کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کر رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد دوبارہ یہ دونوں کارکنوں کے بیچ ہوں گے۔
ایک اہم حکومتی ذمہ دار سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی اور ہی پلان میں ہیں اور شاید گرفتاری مقصود نہیں۔ بہرحال ایک طرف ورکرز آنسو گیس کے شیل جھیل رہے تھے، لاٹھی چارج برداشت کر رہے تھے اور جان بچانے کے لیے منتشر ہو رہے تھے تو دوسری جانب آناً فاناً دونوں لیڈران غائب ہو چکے تھے، ان کی خبر صرف پردہ سکرین پر قیاس آرائیوں کی زینت بنی ہوئی تھی۔
معلوم ہوا کہ دونوں مونال سے پیر سوہاوہ اور پھر ہری پور کے راستے مانسہرہ جا پہنچے ہیں۔ کارکنان وہیں کے وہیں دیکھتے رہ گئے۔ سچ پوچھیں تو جیل بیٹھے خان اور ان سے جُڑے کارکنان اس سب کے باوجود بھی ایک دوسرے سے بے حد جُڑے ہیں، لیکن یہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟
