Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مطیع اللہ جان کے خلاف درج ایف آئی آر جعلی اور من گھڑت ہے: رانا ثنا اللہ

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ جان کے خلاف درج ایف آئی آر جعلی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان نے صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف درج مقدمے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایف آئی آر جعلی اور اس کے مندرجات من گھڑت ہیں۔
جمعرات کی رات کو جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر جعلی ہے۔ ’چونکہ یہ کیس اسلام آباد پولیس نے درج کیا ہے، اس لیے آئی جی اسلام آباد کو سامنے آکر جواب دینا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ مطیع اللہ جان پر درج کیس کے حوالے سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزرا کا متضاد موقف سامنے آرہا ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو ہی پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ زاہد بخاری نے اس مقدمے کی حمایت کرتے ہوئے ایکس (ٹوئٹر) پر ایک صحافی کی پوسٹ پر لکھا تھا کہ ’آپ ان لوگوں کو صحافی کہتے ہیں جو جھوٹی خبریں دیتے اور ڈالروں کے لیے پورے ملک میں آگ لگوانے کا دھندہ کرتے ہیں؟‘
’جو رینجرز اہلکاروں کی ہلاکت پر جھوٹ بولتے ہیں، فرضی لاشیں ڈھوںڈتے پھرتے ہیں تاکہ پروپیگنڈا سیل میں حاضری لگوائی جاسکے، یہ صحافت ہوتی ہے؟ پلیز اپنے بیچ میں سے ایسے لوگوں کو خود سے علیحدہ کریں یہ آپ کا فرض ہے۔‘
تاہم پنجاب کی وزیراطلاعات کی پوسٹ میں صحافی مطیع اللہ جان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، ایف آئی آر میں مذکورہ کسی الزام کا ذکر نہیں ہے۔
ان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ درج مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صحافی مطیع اللہ سے 246 گرام آئس برآمد ہوئی جبکہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔
 عظمیٰ بخاری کے برعکس مسلم لیگ ن کے ایک اور مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے بھی مطیع اللہ جان کے خلاف درج مقدمے کی مخالفت کی ہے۔
فیس بک پر طویل پوسٹ میں سعد رفیق نے مطیع اللہ کے خلاف مقدمے کو شرمناک اور جعلی قرار دے کر حکومت کو مشورہ دیا کہ پروفیشنل صحافیوں سے نہیں لڑ سکتے، ایسا نہ کریں، اس میں سے خجالت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے مطیع اللہ جان کو دو دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سعد رفیق کے مطابق مطیع  اللّٰہ جان ایک مخصوص طرز فکر کے سینیئر اور پیشہ ور صحافی ہیں، بے خوف آدمی ہیں، دبنا ان کی سرشت نہیں، اپنی بات کہہ کر ہی رہتے ہیں۔ اپنے نقطۂِ نظر کو ثابت کرنے کے لیے وہ متعدد بار حد بھی کراس کر لیتے ہی۔ سو ان سے بہت سے ایشوز پراختلاف زیادہ اور اتفاق کم ہوتا ہے۔‘
سعد رفیق نے مزید لکھا کہ ’چند روز پیشتر انہوں نے سوشل میڈیا پر میری ایک پوسٹ کے حوالے سے مجھ پر الزام عائد کیا۔ میں نے مناسب الفاظ میں ردعمل دیا، انہوں نے بھی سلیقے سے جواب دیا، میں نے فون کر کے اپنے موقف کی وضاحت کی جو کہ انہوں نے قبول کر لی۔‘
’اب انہیں پولیس پر حملہ کرنے، آئس استعمال کرنے اور رکھنے کے شرمناک اور جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان پر فیک نیوز کا الزام ہے تو مقدمہ بھی اسی الزام کے تحت درج کیا جاتا، لیکن عمران حکومت میں رانا ثنا اللّٰہ خان کے ساتھ ہونے والی زیادتی نہ دہرائی جائے۔‘
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پروفیشنل صحافیوں سے نہیں لڑ سکتے، ایسا نہ کریں، اس میں سے خجالت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
انہوں نے لکھا کہ پکڑ دھکڑ کے بجائے ان سے دلائل  کے ساتھ اختلاف کریں، پیشہ ور صحافی جیسا بھی ہوگا اختلافی بات ضرور سنے گا۔ ان پر قائم مقدمہ واپس لیا جائے اور انہیں رہا کیا جائے۔
یاد رہے کہ بدھ کی صبح صحافی ثاقب بشیر اور مطیع اللہ جان کی فیملی نے دعویٰ کیا تھا کہ مطیع اللہ کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے اغوا کیا گیا۔
جمعرات کی علی الصبح صحافی ثاقب بشیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ گذشتہ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ اُن کو مطیع اللہ جان کے ہمراہ پمز ہسپتال کی پارکنگ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور بعد ازاں اُن کو سیکٹر آئی نائن میں چھوڑ دیا گیا۔
دن میں مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
مطیع اللہ جان کی گرفتاری اور ان کے خلاف درج مقدمے کی صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز نے مذمت کی ہے۔

شیئر: