اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے صحافی اور اینکرپرسن مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج طاہر جاوید سپرا نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے مطلیع اللہ جان کو 30 نومبر کو عدالت میں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ درج مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صحافی مطیع اللہ سے 246 گرام آئس برآمد ہوئی جبکہ انھوں نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے۔
قبل ازیں صحافی ثاقب بشیر اور مطیع اللہ جان کی فیملی نے کہا تھا کہ اُن کو گزشتہ رات اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے اغوا کیا گیا۔
مزید پڑھیں
جمعرات کی علی الصبح صحافی ثاقب بشیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ گزشتہ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ اُن کو مطیع اللہ جان کے ہمراہ پمز ہسپتال کی پارکنگ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور بعد ازاں اُن کو سیکٹر آئی نائن میں چھوڑ دیا گیا۔
ثاقب بشیر نے بتایا کہ اُن کو مطیع اللہ جان کے ہمراہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ڈبل کیبن گاڑی میں لے جا کر ایک عمارت میں رکھا گیا جہاں سے بعد ازاں دوسری گاڑی میں منتقل کر کے سیکٹر آئی نائن میں چھوڑ دیا گیا۔
مطیع اللہ جان کے بیٹے نے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اُن کے والد کو پمز کے باہر سے اغوا کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنے والد کی بازیابی کی اپیل کی۔
مطیع اللہ جان کے بیٹے عبدالرزاق نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اُنہوں نے تھانہ کراچی کمپنی جی نائن کو اپنے والد کی بازیابی کے لیے درخواست جمع کرائی ہے جہاں تاحال مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کیے گئے ایک بیان میں مطیع اللہ جان کے اغوا کی مذمت کی ہے۔
دوسری طرف لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی و یوٹیوبر شاکر اعوان کے بھائی زاہد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شاکر رات کو 10 بجے گھر آئے جبکہ رات تقریبا 2 بجے ایک درجن سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہمارے گھر آئے جنہوں نے ایلیٹ فورس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ کچھ افراد سول کپڑوں میں بھی تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آتے ہی انہوں نے شاکر اعوان کو حراست میں لیا اور ان کا موبائل فون بھی لے لیا اور ان کی اہلیہ کی مزاحمت پر ان کا فون بھی لے لیا گیا۔ جس کے بعد جاتے ہوئے گھر میں لگا سی سی ٹی وی کیمرا بھی ساتھ لے گئے۔ ہم پوچھتے رہے کہ کہاں لے جا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں بتایا گیا اور ابھی کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘
لاہور پولیس نے ابھی تک شاکر اعوان کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔ گزشتہ مہینے ایک نجی کالج میں ’فیک ریپ کیس‘ کو سوشل میڈیا پر ہوا دینے کے الزام میں ایف آئی اے نے شاکر اعوان پر مقدمہ درج کیا تھا تاہم اس مقدمے میں وہ ضمانت پر تھے۔