کراچی میں ’طلبا ہیکنگ میں ملوث‘، ٹیچر کے فیس بک سے تصاویر وائرل
کراچی میں ’طلبا ہیکنگ میں ملوث‘، ٹیچر کے فیس بک سے تصاویر وائرل
جمعہ 29 نومبر 2024 5:52
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کراچی میں طلبا کی جانب سے اپنے سکولوں کی ویب سائٹس ہیک کرنے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: ڈیٹا پرائیوسی گروپ
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایک سکول کی ٹیچر ثمیہ نوید کو اُس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب اُن کے فیس بک سے اُن کی تصاویر وائرل ہوئیں۔
اُن کو اُس وقت مزید حیرت ہوئی جب انہوں نے اپنے اکاؤنٹ میں لاگ اِن کی بارہا کوشش کی مگر وہ ناکام رہیں۔
ثمیہ نوید کو اُن کی ایک ساتھی ٹیچر نے بتایا کہ ’کسی نے شاید ان کا آئی ڈی ہیک کر لیا ہے لہٰذا وہ فوری طور پر سکول انتظامیہ اور آئی ٹی کے شعبے کو اطلاع دیں، تاکہ جلد سے جلد آئی ڈی کو ریکور کیا جا سکے۔‘
ثمیہ نے سکول کے آئی ٹی ڈیپارنمٹ کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کیں اور کچھ دیر میں ریکور کر لیا گیا۔
ثمیہ کا آئی ڈی تو ریکور ہو گیا مگر اُن کو یہ جان کر مزید حیرت ہوئی کہ ان کی کچھ تصاویر ان کے آئی ڈی سے دو روز قبل شیئر کی گئی ہیں۔
ثمیہ کے مطابق یہ تصاویر انہوں نے شیئر نہیں کی تھیں بلکہ کسی نے ان کے آئی ڈی کو ہیک کر کے تصاویر شیئر کی ہیں۔
کراچی میں سکول کے طلبا کی جانب سے اپنے سکولوں کی ویب سائٹس ہیک کرنے اور اساتذہ کو بدنام کرنے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سائبر کرائمز کی اس بڑھتی ہوئی شرح پر تشویس کا اظہار کیا ہے جن میں سے زیادہ واقعات ہیکنگ اور بدنام کرنے کے ہیں۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد عامر نواز نے اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کیا اور کہا کہ ’طلبا کے سائبر کرائمز میں ملوث ہونے کی ایک بڑی وجہ آگاہی کی کمی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سکول کے طلبا ویب سائٹس ہیک کر کے اساتذہ کی عزت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا بنیادی سبب بچوں میں سائبر سکیورٹی کے بارے میں عدم آگاہی ہے۔‘
کراچی میں سائبر کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات کا رجحان سکول انتظامیہ، والدین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق گذشتہ دس ماہ میں کراچی سائبر کرائم ونگ نے 700 سے زائد شکایات کو نمٹایا ہے جن میں سے 8 افراد کے خلاف الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ ’اُن کے پاس محدود وسائل ہیں اور وہ دستیاب افرادی قوت کے ساتھ ان کیسز کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
محمد عامر نواز نے مزید کہا کہ ’یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سکولوں کی ویب سائٹس یا اساتذہ کی ذاتی معلومات کو ہیک کرنا نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ اخلاقی گراوٹ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’والدین اگر اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کے غیر محفوظ استعمال کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کریں تو اس طرح کے واقعات میں کمی آ سکتی ہے۔‘
آگاہی کی کمی
ایف آئی اے کے مطابق، سکولوں میں سائبر سکیورٹی سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بھی طلبا اس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں۔ بہت سے سکولوں میں ڈیجیٹل سکیورٹی کا نظام موجود نہیں ہے جس کا فائدہ طلبا اٹھاتے ہیں اور اساتذہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محمد عامر نواز نے والدین سے اپیل کی کہ ’وہ اپنے بچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ انٹرنیٹ پر کی جانے والی ہر حرکت کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اور سائبر کرائمز کی سزا بہت سنگین ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کی نگرانی کریں اور انہیں بتائیں کہ آن لائن دنیا میں ان کی جانب سے انجام دی گئی سرگرمیوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔‘
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کے تدارک کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ادارے نے سکولوں میں سائبر سیکیورٹی سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے متعدد ورکشاپس اور سیمینار منعقد کیے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایف آئی اے نے سکولوں کی ویب سائٹس کے سکیورٹی سسٹمز کا جائزہ لینے کے لیے سکولوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سائبر سکیورٹی کے ماہرین کی خدمات حاصل کریں۔
ایف آئی اے کے حکام نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اگر سکولوں کی ویب سائٹس یا اساتذہ کی معلومات ہیک کی جائیں تو فوراً رپورٹ درج کروائی جائے تاکہ اس معاملے کو جلد حل کیا جا سکے اور ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
والدین اور سکولوں کا کردار
حکام کا کہنا ہے کہ سکولوں اور والدین دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں بچوں کے لیے انٹرنیٹ ایک طاقتور مگر خطرناک ہتھیار بن چکا ہے، سکولوں کو چاہیے کہ وہ سائبر سکیورٹی کی اہمیت پر طلبہ کو تعلیم دیں اور والدین کو اس بات کا شعور دیں کہ ان کے بچوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
کراچی میں سکولوں کے طلبا کی جانب سے سائبر کرائمز میں ملوث ہونے کے واقعات ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کا حل صرف اور صرف سکولوں، والدین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔