چار ماہ میں 14 سو سے زائد شکایات، پاکستان میں واٹس ایپ ہیکنگ سے کیسے بچا جائے؟
چار ماہ میں 14 سو سے زائد شکایات، پاکستان میں واٹس ایپ ہیکنگ سے کیسے بچا جائے؟
جمعرات 24 اکتوبر 2024 7:16
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ایف آئی اے کے مطابق متاثرہ شخص اپنی غلطی سے ہی اپنا اکاؤنٹ کسی کے حوالے کر دیتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی سے تعلق رکھنے والی اِرم عزیز ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کام پبلک ڈیلنگ کا ہے جس کے باعث انہیں اپنے کام کے لیے روزانہ ہی مختلف لوگوں سے رابطے میں رہنا پڑتا ہے۔
اِرم اُس روز بھی اپنے معمول کے مطابق دفتر میں کام میں مصروف تھیں کہ اُن کے موبائل پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال ان کے ساتھ کام کرنے والی ثوبیہ انور کی تھی۔
اِرم کے مطابق ’عام طور پر ثوبیہ سے ان کا رابطہ دفتر میں ہی ہوتا ہے جس کے باعث دفتری اوقاتِ کار میں ان کی کال کا آنا حیران کن تھا۔‘ اِرم نے ثوبیہ کے چیمبر میں جھانکا اور اُن سے پوچھا کہ ’کیا کال کی تھی؟‘
ثوبیہ کے چیمبر میں چوںکہ دیگر افراد بھی موجود تھے تو انہوں نے اِرم کو اشارہ کیا کہ ’اپنا فون چیک کریں میں نے کام کر دیا ہے۔‘
اِرم کمرے سے باہر آئیں اور اپنا موبائل فون چیک کیا لیکن اس میں کوئی پیغام نہیں تھا۔ اِرم ایک بار پھر ثوبیہ کے چیمبر کی جانب گئیں اور استفسار کیا کہ ’موبائل پر تو کوئی میسج نہیں آیا؟‘
ثوبیہ نے جواب دیا کہ ’کئی بار نیٹ ورک سلو ہونے کی وجہ سے میسیج دیر سے موصول ہوتا ہے۔ آپ اپنا واٹس ایپ چیٹ باکس چیک کریں۔‘ اِرم نے استفسار کیا کہ ’کون سا میسج؟‘
ثوبیہ نے انہیں بتایا کہ ’رات گئے انہیں واٹس ایپ پر ان کے نمبر سے میسج آیا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشن لِمٹ پوری ہوگئی ہے، اور آپ (ارم عزیز) کو ارجنٹ کسی کو پیسے بھیجنے ہیں تو ثوبیہ آپ اپنے اکاؤنٹ سے بھیج دیں اور یہ کہ آپ ایک سے دو روز میں مجھے پیسے واپس کر دیں گی۔‘
اِرم نے چند لمحات کے لیے تؤقف کیا اور گہری سانس لیتے ہوئے سوچنے لگیں کہ ’انہوں نے رات کو کب ثوبیہ کو میسج کیا اور کس کو پیسے بھیجنے کی بات کی؟‘
اِرم نے اپنا موبائل چیک کیا تو اس میں ایسا کوئی میسیج موجود نہیں تھا، انہوں نے ثوبیہ کو بتایا کہ انہوں نے تو کسی کو میسج نہیں کیا اور نہ ہی انہیں کسی کو پیسے بھیجنے تھے۔
دونوں حیرت میں بہت دیر تک سوچتی رہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اِرم کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ جب صبح دفتر جانے کے لیے نکلنے لگی تھیں تو ان کے موبائل فون میں واٹس ایپ میسنجر سائن آؤٹ تھا، اور انہوں نے سم نمبر سے اسے دوبارہ سائن اِن کیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں یہ بات اِرم اور ثوبیہ کے دفتر میں پھیل گئی، جس پر دفتر میں کام کرنے والے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے کارکن ارسلان نے انہیں بتایا کہ ’ان دنوں اس نوعیت کے بہت سے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، جن میں واٹس ایپ آئی ڈی کو ہیک کر لیا جاتا ہے اور پھر اس نمبر سے لوگوں کو میسج کر کے مختلف موبائل اکاؤنٹس میں پیسے منگوائے جاتے ہیں۔‘
ارسلان کی بات سننے کے بعد اِرم نے فی الفور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رابطہ کیا اور اس بارے میں اپنی شکایت درج کرائی۔ انہوں نے ساتھ ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور فرینڈ لسٹ میں یہ پیغام شیئر کیا کہ اُن کا ’واٹس ایپ ہیک کرکے کوئی فراڈ کرنے والا شخص لوگوں سے پیسے طلب کر رہا ہے، چناںچہ اُن کے نمبر سے آنے والے ایسے کسی بھی میسج پر فوری مجھ سے رابطہ کیا جائے۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’گذشتہ چار ماہ کے دوران سائبر کرائم ونگ کو 14 سو سے زائد واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہونے کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں سے پانچ سو سے زیادہ کیسز کو حل کیا جا چکا ہے، جبکہ ساڑھے آٹھ سو سے زائد کیسز پر سرِدست کام جاری ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’حل شدہ کیسز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ متاثرہ شخص اپنی غلطی سے ہی اپنا اکاؤنٹ کسی کے حوالے کر دیتا ہے، جب کہ متعدد ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں غیر دانستہ طور پر کسی لنک کو کھولنے پر آئی ڈی ہیک ہوئی۔‘
آئی ٹی امور کے ماہر محمد نعمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان دنوں واٹس ایپ، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ہیک ہونے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ان کیسز پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شہری کئی بار کچھ اہم معاملات کو نظر انداز کرتے ہیں جیسے اپنی آئی ڈی کو کسی بھی عوامی مقام پر استعمال ہونے والے کمپیوٹر پر سائن اِن کرنے کے بعد صرف آئی ڈی کو لاگ آؤٹ کرتے ہیں، کیوںکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ آئی ڈی اب کوئی نہیں کھول سکتا۔‘
’لیکن کمپیوٹر کی ہسٹری میں ان کا آئی ڈی اور پاس ورڈ محفوظ ہوجاتا ہے، اور کوئی بھی اسے بعد میں کھول سکتا ہے جس کے باعث یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی فرد جب اپنی آئی ڈی کسی بھی سسٹم میں لاگ اِن کرے تو براوزر کی ہسٹری کو بھی ضرور ریموو کرے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شہریوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی نامعلوم نمبر سے آنے والے لنک کو نہ کھولیں۔ اس سے بھی ان کی آئی ڈی ہیک ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ اپنے موبائل نمبر پر آنے والے خفیہ کوڈ کسی سے بھی شیئر نہ کریں۔ سوشل ایپلیکشنز کی جانب سے اب اپنے پلیٹ فارمز کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جس کے باعث ہیکنگ مشکل ہوگئی ہے، لیکن کوئی شہری اگر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنا سکیورٹی کوڈ کسی سے شیئر کرتا ہے تو اُس کی آئی ڈی ہیک ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔‘