قائداعظم کے قریبی ساتھی حسین شہید سہروردی جو ’ملک کو متحد رکھنے کی امید تھے‘
قائداعظم کے قریبی ساتھی حسین شہید سہروردی جو ’ملک کو متحد رکھنے کی امید تھے‘
جمعرات 5 دسمبر 2024 7:06
علی عباس۔ لاہور
حسین شہید سہروردی کا بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
بنگال کے مردم خیز خطے میں، ضلع مدنا پور کا سہروردی خاندان غیرمنقسم ہندوستان میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔
یہ خاندان علم و فضل میں بھی نمایاں تھا۔ کلکتہ (موجودہ کولکتہ) ہائی کورٹ کے جسٹس سر زاہد سہروردی اسی خاندان سے ہی تھے۔ اُن کی اہلیہ خجستہ بانو سینیئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں جو پوری زندگی حقوقِ نسواں اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتی رہیں۔ انھوں نے ایک ناول ’آئینۂ عبرت‘ بھی لکھا جو کلکتہ یونیورسٹی کے نصاب میں بھی شامل رہا۔
سر زاہد سہروردی اور خجستہ بانو کے چھوٹے بیٹے حسین شہید سہروردی نے خاندان کی روایت کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ برطانیہ سے بیرسٹری پڑھ کر وطن لوٹے تو ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر پہچان بنائی۔ اس دوران کلکتہ کے ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ سیاست کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے صوبائی مسلم لیگ کے سیکریٹری بنے تو بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگا۔
1946 میں کلکتہ میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے جب کہ ان فسادات کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ مل کر سرتوڑ کوشش کی تھی۔
1947 میں تقسیم ہند کے وقت بنگال کے وزیراعظم (وزیراعلیٰ) تھے۔ تقسیم کے بعد کبھی ’غدار‘ اور کبھی ’انڈین‘ ایجنٹ کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے پہلے وفاقی وزیر قانون و انصاف، پھر قائد حزبِ اختلاف اور بالآخر ملک کے پانچویں وزیراعظم بنے۔
حسین شہید سہروردی دمِ آخر تک مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں ختم کرنے کی بات کرتے رہے مگر اُن کا یہ خواب بہت سے عوامل کی وجہ سے پورا نہیں ہو سکا جن پر بات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا ذکر کیے بغیر اُن کے سیاسی سفر کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
لیاقت علی خان سے اختلافات
حسین شہید سہروردی اور لیاقت علی خان کے اختلافات تقسیم کے فوراً بعد ہی واضح ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات اس قدر شدید تھے کہ اُن کی گونج آنے والے کئی برس تک سنائی دیتی رہی۔ یہ لیاقت علی خان ہی تھے جنہوں نے پہلی بار حسین شہید سہروردی کو ’غدار‘ قرار دیا تھا۔
قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت ’شہاب نامہ‘ میں لیاقت علی خان کی سہروری کے بارے میں نقل کی گئی تقریر سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنماؤں میں اختلافات کس نہج پر پہنچ چکے تھے، ’یہ لوگ وطن کے غدار ہیں، جھوٹے ہیں، منافق ہیں۔‘
بیرسٹر شاہدہ جمیل پاکستان کی وفاقی وزیر وزیر قانون و انصاف رہ چکی ہیں۔ وہ سہروردی کی نواسی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں ان اختلافات کی وجہ سہروردی کا جناح کی 11 اگست کی تقریر کا حامی ہونا اور لیاقت علی خان کا حلقہ انتخاب یہاں نہ ہونا بتائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’لیاقت علی نے ریڈیو پاکستان پر سہروردی کو ’غدار‘ کہا۔‘
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما بلکہ سہروردی کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اُن کی نشست سے محروم کرنے کے علاوہ ان کے لیے جلسوں سے خطاب کرنے اور ڈھاکہ میں قیام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کیوں کہ اُس وقت منظور کیے جانے والے ایک قانون کے تحت تقسیم کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر پاکستان کے کسی علاقے میں رہائش اختیار کرنا ضروری تھا۔
سہروردی کی ماموں زاد بہن شائستہ اکرام اللہ، جو خود بھی پہلی دستور ساز اسمبلی کا حصہ رہیں، اس حوالے سے حسین شہید سہروردی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’وہ جون 1948 میں ڈھاکہ گئے لیکن ان کی آمد کے 24 گھنٹوں کے بعد انہیں ڈھاکہ بدری کا نوٹس دیا گیا۔ یہ نوٹس آئی جی ذاکر حسین کی ہدایات پر سٹی مجسٹریٹ نے ان سے موصول کروایا۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ بدر کیے جانے کا نوٹس تھا بلکہ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آئندہ چھ ماہ کے لیے مشرقی پاکستان داخل نہیں ہو سکتے۔‘
آل پاکستان عوامی مسلم لیگ کا قیام
مسلم لیگ سے نکالے جانے اور دستور ساز اسمبلی سے الگ کیے جانے کے بعد سہروردی بھی اُن رہنماؤں میں پیش پیش تھے جو جون 1949 میں ڈھاکا کے روز گارڈن میں ایک الگ جماعت بنانے کے لیے یکجا ہوئے۔ اس بارے میں بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ’سال 1949 میں پاکستان آمد کے بعد حسین شہید سہروردی نے قائد کی 11 اگست کی تقریر کی بنیاد پر ’جناح مسلم لیگ‘ بنائی جو بعد میں ’جناح عوامی مسلم لیگ‘ کہلائی اور پھر 1951 کے بعد پہلے لفظ ’جناح‘ اور پھر ’مسلم‘ ہٹا دیا گیا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیاقت علی خان نہیں رہے تو اسے ’عوامی مسلم لیگ‘ کیا، پھر انہیں لگا کہ یہاں ہم مسلمان ہی تو ہیں، یوں اِسے ’عوامی لیگ‘ کر دیا۔‘
تاہم، بنگالی مصنف اور سیاسی مورخ محی الدین احمد عوامی لیگ کی تاریخ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’پارٹی کے نام کے ساتھ لفظ ’مسلم‘ لگانے پر کچھ لوگوں نے بعد میں اعتراض کیا اور اس کے متعلق پارٹی میں کافی تنازع رہا کہ لفظ مسلم ہونا چاہیے کہ نہیں۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جب مولانا بھاشانی پارٹی کو سیکولر بنانے کے لیے لفظ مسلم کو ختم کرنے پر اصرار کر رہے تھے تو حسین شہید سہروردی چاہتے تھے کہ لفظ مسلم قائم رہے کیوں کہ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں مغربی پاکستان میں اُن کی پارٹی کی مقبولیت کم نہ ہو جائے۔‘
وزیراعظم کے طور پر انتخاب اور رُخصتی
سہروردی تیسرے ایسے وزیراعظم تھے جو بنگال سے تھے۔ اُن سے قبل یہ عہدہ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کے پاس رہا تھا۔ خواجہ ناظم الدین بھی سہروردی کے نمایاں سیاسی مخالفوں میں سے ایک تھے جو انہیں ’پاکستان دشمن‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘ قرار دیتے تھے۔
سہروردی 12 ستمبر 1956 سے 17 اکتوبر 1957 تک وزیراعظم رہے۔ اِس سے قبل وہ سال 1954 میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں وزیر قانون رہ چکے تھے جس کے بعد تقریباً ایک سال اور کچھ دن قائد حزب اختلاف بھی رہے۔
سہروردی جب وزیراعظم بنائے گئے تو بنگال کے ہی سکندر مرزا ملک کے صدر تھے۔ شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ ’چوہدری محمد علی کی وزارت کے خاتمے کے بعد صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کریں، گوکہ اس سے قبل صدر اظہار کر چکے تھے کہ ایسا صرف ان کی لاش پر ہی ممکن ہے لیکن حالات نے انہیں اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا۔‘
اس دور میں وزیراعظم ہاؤس سے منسلک رہنے والے نعیم احمد خان، محمد ادریس اور عبدالستار کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ‘پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم‘ میں مگر صدر سکندر مرزا اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے درمیان خوشگوار تعلقات کا تاثر ملتا ہے۔
وہ چپڑاسی مجید کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’ایک رات تو یہ رنگ جما کہ ناچتے ناچتے رات کے دو بج گئے۔ بالآخر سکندر مرزا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گورنر جنرل ہاؤس چلے گئے اور دوسرے مہمان بھی چلے گئے۔
سہروردی صاحب اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ جب مجید چپڑاسی نے سہروردی صاحب کو جا کر اطلاع دی کہ حضور بیگم سکندر مرزا تو یہیں رہ گئی ہیں۔ سہروردی صاحب آئے، اور پھر خود ہی گاڑی چلا کر بیگم سکندر مرزا کو گورنر جنرل ہاؤس چھوڑ آئے۔
برجیس ناگی اپنی کتاب ’پاکستان: دی لینڈ آف دی بیٹریڈ‘ میں سہروردی کا وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کو اُن کی ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہیں کیوں کہ اُن کے خیال میں اِس کی وجہ سے سہروردی کو بہت سے کمپرمائزز کرنا پڑے۔ ممتاز صحافی اور براڈکاسٹر علی احمد خان بھی اپنی کتاب ’جیون ایک کہانی‘ میں یہ ذکر کرتے ہیں کہ سہروردی کے وزارتِ عظمیٰ سے مشرقی پاکستان کے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔
حسین شہید سہروردی ایک سال اور 35 دن وزیرِاعظم رہے جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ’جب نانا وزیراعظم بنے، تو ہم ’وزیراعظم ہاؤس‘ میں بھی رہے، 13 ماہ بعد انہوں نے انتخابات نہ کروانے پر استعفیٰ دے دیا۔‘
امریکہ کی جانب جھکاؤ
لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی کی امریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے خارجہ پالیسی ایک سی تھی جو عوامی لیگ میں تقسیم کی وجہ بھی بنی۔
محی الدین احمد لکھتے ہیں کہ ’اُس وقت مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت تھی لیکن پاکستان کی وفاقی حکومت نے امریکا کے ساتھ کئی فوجی معاہدے کیے تھے اور پاکستان سیٹو (ساؤتھ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن) اور سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) جیسے فوجی اتحاد کا رُکن تھا۔
’مولانا بھاشانی اور پارٹی کے اندر بائیں بازو کے لوگ عوامی لیگ پر زور دے رہے تھے کہ وہ امریکی فوج اتحاد سے دستبردار ہو جائے لیکن سہروردی کو امریکی معاہدے کا حامی سمجھا جاتا تھا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مولانا بھاشانی پاک امریکا فوجی معاہدے کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن وزیراعظم سہروردی اس پر راضی نہیں ہوئے۔‘
بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ’لیاقت علی کا دورۂ امریکا بالکل درست تھا، کیوں کہ 1947 میں روس اور برطانیہ ’تقسیمِ ہند‘ کے مخالف جب کہ امریکا حامی تھا۔ روس نے ہمیں ٹھوکر ماری، ہم اس کی طرف کیوں جاتے؟ خارجہ پالیسی پر سہروردی وزیراعظم لیاقت علی کے ساتھ تھے۔‘
صدر ایوب خان سے اختلافات
ایوب خان اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگا کر صدر بنے تو سہروردی کے لیے نہ صرف سیاست کے دروازے بند کر دیے گئے بلکہ انہیں ’ملک دشمن‘ سرگرمیوں کے الزام میں سات ماہ تک قیدِ تنہائی میں بھی رکھا گیا۔اُن کی گرفتاری پر مشرقی پاکستان میں شدید ردِعمل ظاہر کیا گیا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’سہروردی کے بارے میں لیاقت علی خان کی گفتگو ایوب خان نے انگریزی اور اردو میں ڈائری پر چڑھا رکھی تھی، جسے اقتدار پر قبضے کے بعد وہ نجی محفلوں میں چٹخارے لے کر سناتے تھے۔‘
جلاوطنی اور موت
سہروردی رہا ہوئے تو انہیں ڈھاکہ میں زبردست طریقے سے خوش آمدید کہا گیا، مگر وہ زیادہ عرصہ عوام کے درمیان نہ رہ سکے اور عارضۂ قلب کے باعث بیرونِ ملک منتقل ہو گئے اور آج ہی کے روز 5 دسمبر 1963 کو بیروت (لبنان) کے ایک ہوٹل میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے۔ یہ ایک ایسے رہنما کی موت تھی جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھ سکتا تھا۔
کالم نگار اور صحافی وجاحت مسعود روزنامہ جنگ کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ’مولوی فضل حق 27 اپریل 1962 اور مولوی تمیز الدین 19 اگست 1963 کو رخصت ہوئے۔ حسین شہید سہروردی 5 دسمبر 1963 اور خواجہ ناظم الدین 22 اکتوبر 1964 کو وفات پا گئے۔ گویا کوئی دو برس میں مشرقی بنگال کے وہ سب زعما اٹھ گئے جن سے قائداعظم کا پاکستان متحد رکھنے کی امید کی جا سکتی تھی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان برسوں میں پاکستان پر ایوب خان کا طوطی بول رہا تھا اور یہ سب سیاسی رہنما گوشۂ گمنامی کی نذر ہو چکے تھے۔‘
بیرسٹر شاہدہ جمیل نے اپنے اخباری انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ’اہل خانہ حسین شہید سہروردی کو ’مزارِ قائد‘ میں سپردِخاک کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں مغربی پاکستان میں کہیں بھی تدفین سے روک دیا گیا! ملک علیحدگی کی طرف جا رہا تھا اور وہ یہاں کسی بنگالی کی قبر نہیں چاہتے تھے۔‘
اُن کے مطابق ‘شیخ مجیب نے قتل کہہ کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی، جس کے بعد ’اتفاق‘ اخبار (ڈھاکہ) کے مدیر میاں تفضل حسین کی ہدایت پر میری والدہ نے ’تردید‘ کی حالاں کہ وہ ایسا نہیں سمجھتی تھیں، لیکن انہیں لگا کہ قوم پرستی سے سہروردی کی جدوجہد ضائع ہو جائے گی۔‘
اور ہوا بھی ایسا ہی، سہروردی کے بعد کوئی ایسا رہنما نہیں رہ گیا تھا جو ملک کے دونوں بازوؤں میں پل کا کردار ادا کر سکتا اور یوں قیادت کا ایسا خلا پیدا ہوا جسے قوم پرست عناصر نے پُر کیا اور یوں آمرانہ رویے اور سیاسی حماقتیں سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئیں۔