مارشل لا لگانے والے جنوبی کورین صدر کے بیرون ملک سفر پر پابندی
مارشل لا لگانے والے جنوبی کورین صدر کے بیرون ملک سفر پر پابندی
پیر 9 دسمبر 2024 12:48
تین دسمبر کو کیا جانے والا مارشل لا کا اعلان احتجاج کے بعد واپس لے لیا گیا تھا (فوٹو: روئٹرز)
جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش کرنے والے صدر یون سوک ییول کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو وزارت انصاف کی جانب سے صدر یون سوک ییول پر یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگی ہے جب ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ملک میں قیادت کا بحران بھی شدید ہوتا رہا ہے۔
اس سے قبل صدر یون مارشل لا لگانے کی کوشش پر معافی مانگ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی و قانونی قسمت کا فیصلہ پیپلز پارٹی پاور (پی پی پی) پر چھوڑتے ہیں تاہم انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔
مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان سے مجرمانہ الزامات کے تحت بھی تفتیش جاری ہے۔
پیر کو وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ صدر یون اب بھی قانونی طور پر کمانڈر ان چیف ہیں تاہم دوسری جانب سینیئر فوجی قیادت میں بڑھتے اختلافات کے باعث اختیار پر ان کی گرفت ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
جنوبی کوریا میں انسداد بدعنوانی کے ادارے کے اس شعبے جو اعلیٰ شخصیات سے تفتیش کرتا ہے، کے سربراہ اوہ ڈانگ وون سے جب پوچھا گیا کہ ان کے خلاف کیا اقدامات ہونے جا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ان کو بیرون ملک سفر سے روک دیا گیا ہے۔‘
وزارت انصاف کے عہدیدار بائے سینگ اپ نے کمیٹی کو بتایا کہ ’بیرون ملک سفر پر پابندی کے حکم کی تعمیل کی جا رہی ہے۔‘
2021 میں اعلیٰ حکام سے تفتیش کے لیے ایک پینل بنایا گیا تھا، جو صدر اور ان کے خاندان کے افراد سے بھی تفتیش کر سکتا ہے تاہم وہ صدر پر مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں رکھتا، تاہم قانون کے مطابق معاملے کو پراسیکیوٹر آفس میں بھجوانا ضروری ہوتا ہے۔
صدر یون سنیچر کو پارلیمنٹ میں مواخذے کی کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی پارٹی کی جانب سے صدارتی اختیار وزیراعظم کو سونپنے کا فیصلہ ہوا تھا، جس کے بعد سے اہم امریکی اتحادی آئینی بحران کا شکار ہے۔
صدر یون نے پارٹی کے اندر سے بلند ہونے والی ان آوازوں پر کان نہیں دھرا جن میں ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، تاہم ہفتے کے آخری دنوں میں ان کا مستقبل مزید غیریقینی کا شکار ہوتا نظر آیا جب ایک نیوز ایجنسی نے رپورٹ دی کہ ان سے مبینہ طور پر غداری کے الزام کے تحت تفتیش کی جا رہی ہے۔
پراسیکیوٹرز نے اتوار کو سابق وزیر دفاع کم یانگ ہائیون کو مارشل لگانے کی کوشش میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا تھا۔
صدر یون نے تین دسمبر کو فوج کو ہنگامی طور پر اختیارات دے دیے تھے کہ وہ ’ریاست مخالف قوتوں‘ اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کرے۔
تاہم پارلیمنٹ کی جانب سے اس کے خلاف ووٹ آنے پر چھ گھنٹے بعد اس حکم کو واپس لے لیا گیا تھا۔
وزیر دفاع اور متعدد فوجی حکام کی جانب سے اقدام کے بعد سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ مارشل لا لگانے کے کسی حکم کی تعمیل نہیں کریں گے۔
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعتی ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر یون کے فوج پر اختیار ختم کیے جانے کے علاوہ صدر یون اور مارشل لا کی کوشش میں شامل فوجی حکام کو گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔