ڈاکٹر بٹ صاحب کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ دھیرے سے وہ بولے: ’بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ انہیں کرتے وقت ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اس قدر اثر رکھتی ہوں گی، ان کی مگر اپنی تاثیر اور اہمیت ہوتی ہے۔‘
بٹ صاحب ہمارے دوست ہیں، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور استاد۔ لاہور کے دو معروف میڈیکل کالجوں میں پڑھاتے رہے۔ جس ملاقات کا ذکر ہوا، وہ سردیوں کی ایک خنک شام چائے کے پیالے پر ہوئی۔
باتوں باتوں میں کہنے لگے: ہم نئی نسل کو مطعون ٹھہراتے ہیں۔ ان کو نالائق اور بدتمیز سمجھتے ہیں، لیکن بطور استاد میرا تجربہ مختلف ہے۔ طلبہ تو کوری سلیٹ کی طرح ہیں، اگر استاد ان پر محنت کریں تو بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
زندگی کے یہ رنگ بھی دیکھنے ہی پڑیں گے، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 882768
اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی واقعات سنائے۔ کہنے لگے: میں ہر نئی کلاس سے کچھ دیر گپ شپ کرتا، طلبہ کی پسندیدہ کتب، پسندیدہ مصنفین کا پوچھتا ہوں۔ ہمیشہ طلبہ اچھا رسپانس دیتے ہیں۔
’میں نے ایک اور کام شروع کیا ہے، اپنے لیکچر سے پہلے ایک آدھ منٹ کی کوئی بامقصد، اصلاحی بات کر دی، ویڈیو سلائیڈ دکھا دی اور اس کے بعد روٹین کا لیکچر شروع کر دیا۔ لیکچر کے اختتام پر شروع میں کہی گئی بات کے حوالے سے ایک دو منٹ مزید گفتگو کر لی۔ پچھلے چند ماہ کے تجربے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ تین چار منٹ کی گفتگو بسا اوقات بہت کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر معمولی نظر آنے والے کام آخری تجزیے میں کہیں زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور اہم ثابت ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر بٹ صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: پچھلے دنوں ایک طالبہ کے حوالے سے دلچسپ تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے لیکچر سے پہلے یہ بات کی کہ آپ لوگ کسی روز تنہائی میں بیٹھ کر کچھ دیر رب تعالیٰ سے مکالمہ کریں، سوچیں کہ یہ زندگی ہمیں کیوں عطا ہوئی؟ اس دنیا میں آنا، رہنا اور یہ سب سفر بلاوجہ تو نہیں ہو گا؟ آخر رب تعالیٰ نے کچھ سوچ کر ہی ہمیں یہاں بھیجا ہے۔ اللہ سے خلوت میں گفتگو کریں اور یہ سوال پوچھیں، آپ کو یقیناً کوئی نہ کوئی جواب ملے گا اور آپ کا ذہن واضح ہو گا کہ زندگی میں ترجیحات کا معاملہ کیسے طے کیا جائے۔
’میں یہ بات کہہ کر بھول گیا، کچھ عرصہ بعد ایک دن فیس بک پر اُسی بچی کا میسج آیا۔ اُس نے بتایا کہ میری زندگی میں ایک سو اَسی ڈگری کی تبدیلی آ چکی ہے۔‘
’اس بچی سے سبب پوچھا تو کہنے لگی، آپ نے اُس دن جو بات کی تھی، میں نے اُس پر عمل کر ڈالا۔ میں بڑی ڈپریسڈ تھی، اپنے کمرے میں بیٹھ کر خدا سے مکالمہ کرنا چاہا، کافی دیر سوچتی رہی، سوالات تراشتی رہی، پھر خودبخود ذہن میں اُن کے جوابات اُمڈنے لگے۔ میں ان پر یکسو ہو گئی کہ زندگی کا مقصد رب تعالیٰ کی بندگی ہونا چاہیے، چاہے ہم ڈاکٹر بنیں یا انجینیئر، اُستاد بنیں یا وکیل، تاجر بنیں یا سپاہی، جو بھی کام کریں پوری دیانت داری اور رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں۔‘

ڈاکٹر بٹ کہنے لگے: ’اُس لڑکی کی زندگی میں واقعی انقلاب آگیا، پہلے وہ بہت تیز مزاج تھی، اچانک اُس میں ٹھنڈک آ گئی۔ تعلیم پر فوکس بڑھ گیا، اساتذہ کی زیادہ عزت کرنے لگی، ساتھی طلبہ سے اخلاق بہتر ہو گیا۔ ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ میرے اندر آئی اس تبدیلی سے والدہ خوش نہیں۔ انہیں میرا حجاب لینا پسند نہیں۔ میں نے بچی کو سمجھایا کہ یہ تمہارا امتحان ہے، اپنے والدین کے لیے کوئی ایک جملہ بھی سخت استعمال نہ کرنا، اگر وہ ڈانٹیں یا ناراض ہوں تو بڑے تحمل سے برداشت کرنا اور صرف ایک ہی فقرہ کہنا کہ میں یہ سب اللہ کی خاطر کر رہی ہوں۔‘
’پھر میں نے اُس سے پوچھا کہ گھر کے کام کاج اور والدہ کی کس قدر خدمت کرتی ہو؟ اُس نے شرمندگی سے جواب دیا کہ میں نے تو کبھی اُٹھ کر پانی بھی نہیں پیا۔ اس پر میں نے اُسے اپنا رویہ بدلنے کا مشورہ دیا، کچھ دنوں کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ اپنی خدمت سے ناصرف والدہ کا دل جیت لیا بلکہ سب عزیز و اقارب بھی متاثر ہوئے۔ انہیں یہ لگا کہ مذہبی ہو جانے سے میرے اندر نہایت ہی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔‘
بات صرف یہی ہے کہ آپ میں تبدیلی لانے کی خواہش کس قدر ہے کیونکہ کچھ اچھا کرنے کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نیک نیتی، اخلاص سے کیا گیا چھوٹا کام بھی بڑے نتائج لاسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار کراچی سے ایک خاتون کی ای میل آئی۔ کسی زمانے میں قرض حسنہ دینے کی ترغیب کے حوالے سے کالم لکھا تھا۔ خاتون نے کہیں سے وہ کالم پڑھا اور پھر ان کے بقول میں نے اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ہے۔
انہوں نے لکھا: ’آپ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق قرضِ حسنہ کا ثواب صدقے سے دو گنا زیادہ ہے۔ میں نے ایک کمیٹی ڈالی تھی، جب یہ نکلی تو اس میں سے بیس ہزار الگ کر دیے اور اپنے طور پر قرضِ حسنہ فنڈ بنا لیا۔ اپنی کزنز، اپنے گھر اور سسرال میں سے کسی کو دو چار ہزار کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے قرض لے لیتا ہے۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ اپنی آسانی کے مطابق واپس کر دینا، جب وہ مل جاتا ہے تو اُسے آگے کسی اور کو دے دیتی ہوں۔ یہ چھوٹا سے دائرے کا سفر بن گیا ہے۔ ویسے میں نے دل میں یہ سوچا ہوا ہے کہ جو واپس نہیں کرے گا اس سے مانگوں گی نہیں، لیکن اللہ کا کرم یہ ہوا کہ نندوں، دیورانیوں، بھابھیوں اور ہمسایوں میں سے جس نے لیے، واپس ضرور کیے۔‘
