آٹھ ستمبر: تحریکِ انصاف کی غلطی یا سوچی سمجھی چال، عامر خاکوانی کا کالم
آٹھ ستمبر: تحریکِ انصاف کی غلطی یا سوچی سمجھی چال، عامر خاکوانی کا کالم
جمعرات 12 ستمبر 2024 7:10
عامر خاکوانی -صحافی، لاہور
گورنر راج لگانے کا معاملہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی وفاقی حکومت آسانی سے ایسا نہیں کر سکتی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی، فیس بک)
آٹھ ستمبر کو تحریک انصاف کا اسلام آباد کے نواح میں جلسہ ہوا، اس میں کئی گئی تقریریں خاصی سخت تو تھیں، مگر کے پی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی تندوتیز بلکہ طوفانی تقریر نے ملک کا پورا سیاسی ماحول ہی بدل ڈالا۔
تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مذاکرات کے حوالے سے بہت سے مفروضے، اندازے مارکیٹ میں گردش کر رہے تھے، یہ سب تھیوریز اس جلسہ کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہوا میں بکھر گئیں۔
جلسے کے آفٹر ایفیکٹس آنے ہی تھے، وہ آئے اور کچھ ایسے دھماکہ دار کہ ہماری پارلیمانی سیاست بھی بڑے دھچکے سے دوچار ہو گئی۔
دس ستمبر کی شام قومی اسمبلی کے باہر اور اندر سے انصافین ارکان اسمبلی کی گرفتاری پر دو دنوں سے قومی اسمبلی میں تقریریں چل رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم جیسی اتحادی جماعتیں بھی ان گرفتاریوں کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ ادھر عمران خان نے بھی جلسہ کے بعد جیسے ہی صحافیوں سے سامنا ہوا، اعلان کر دیا کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے، ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، اس لیے یہ معاملہ اب ختم ہوا وغیرہ وغیرہ۔
اب چار پانچ بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں ۔ایسا کیوں ہوا، کس لیے کیا گیا، اس موو کا فائدہ کسے پہنچے گا؟ حکومت کیا کرنے جا رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے پاس کیا آپشنز ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان پر بات کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جارحانہ تقریر کیوں کی؟
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے جارحانہ انداز اور ہارڈ ہٹنگ سٹائل کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آٹھ ستمبر کے جلسہ میں ان کی تقریر اپنے مخصوص گنڈاپور سٹائل سے بھی زیادہ تیز تھی۔ ان کے جملوں نے بہت سوں کو حیرت زدہ کر دیا، خاص کر جنرل ریٹائر فیض حمید کے حوالے سے کیے گئے کمنٹس بہت ہی سخت اور ریڈ لائن عبور کر جانے والے لگے۔
تقریر کے فوری بعد کئی صحافی دوستوں سے بات ہوئی، بعض کا خیال تھا کہ گنڈاپور صاحب اپنی رو میں بہہ کر کچھ زیادہ آگے چلے گئے۔ سوشل میڈیا پر اور نجی سطح پر اکثر انصافین ان کی تقریر کا دفاع کرتے بھی نظر آئے۔ پی ٹی آئی کے بعض انسائیڈ سورسز سے اگلی صبح بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ گنڈاپور صاحب نے یہ غلطی نہیں کی اور ایسا نادانستہ نہیں ہوا۔
ایک اہم رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ خان صاحب کی ہدایات پر ہوا ہے اور وزیراعلیٰ کے پی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا۔
تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک سوشل میڈیا بلاگر کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے یہ حکمت عملی بنائی ہے کہ جن لوگوں پر شبہ ہوتا ہے یا پارٹی کے دوسرے لوگ الزام لگاتے ہیں تو وہ انہیں اسی طرح کا کوئی ہارڈ ہٹنگ ٹارگٹ دے دیتے ہیں۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ اگر وہ شخص کمپرومائز ہو چکا تو وہ بات نہیں مانتا اور پھر کارنر ہوجاتا ہے۔ اگر اس نے ویسا کر دیا تو پھر اس کی پارٹی سے کمٹمنٹ بھی کلیئر ہو جائے گی اور اگر کہیں دوسری طرف کچھ ہے بھی تو پھر ایسی چھینٹیں اڑتی ہیں کہ تعلق ختم۔
علی امین گنڈاپور البتہ عمران خان کے لیے مشکوک آدمی نہیں۔ خان صاحب کو ان پر بھروسہ اور اعتماد ہے۔ سوچ سمجھ کر وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ عمران خان مسلسل گنڈاپور کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ جلسہ سے چند دن پہلے بھی واضح الفاظ میں اعتماد کا اظہار کیا۔ تاہم علی امین گنڈاپور کی یہ تقریر ایک نپی تلی، سوچی سمجھی پولیٹیکل موو تھی۔
تقریر کا تحریک انصاف کو فائدہ کیا ہو سکتا؟
اس کا جواب ایک صحافی دوست نے دیا، جو تحریک انصاف اور عمران خان کے علانیہ ناقد ہیں۔ کہنے لگے کہ ’بظاہر کہیں پر یہ سوچ تھی کہ تحریک انصاف کو آٹھ ستمبر کا جلسہ کرنے دو، پابندیاں لگا کر شرکت کم رکھی جائے، جلسے کے بعد کچھ چھوٹی موٹی گرفتاریاں ہوجائیں اور عمومی ماحول ٹھنڈا رکھتے ہوئے اچانک معاملہ خان صاحب کے ملٹری ٹرائل کی طرف لے جایا جائے ۔ عمران خان یا تحریک انصاف کی قیادت نے اس کا بروقت اور درست اندازہ لگاتے ہوئے پہل کر دی۔ جلسے میں تندوتیز تقریریں کرا کر سیاسی ٹمپریچر یکایک ہائی کر دیا، مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر کے اپنے ورکر کو چارج کر دیا کہ ڈیل نہیں کریں گے، ادھر جواب میں حکومت کی جانب سے اندھادھند گرفتاریوں نے معاملہ مزید گمبھیر اور تلخ بنا دیا۔‘
سیاسی درجہ حرارت واقعی بڑھ گیا ہے۔ کے پی اسمبلی میں ایسی دھواں دھار تقریریں ہو رہی ہیں جو میڈیا میں رپورٹ نہیں کی جا سکتیں۔ اس صوبائی اسمبلی سے ایسی قرارداد منظور ہوئی ہے جس کی کوئی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ گرفتاریوں، احتجاج در احتجاج اور شورشرابے نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ان گرفتاریوں پر امریکی کانگریس کے اراکین کے ٹوئٹس تک آنے لگے ہیں۔تحریک انصاف ایسا ہی چاہتی تھی تاکہ حکومت پر دباﺅ آئے۔ شائد پیچھے کہیں یہ سوچ بھی ہوگی کہ اتنا شور شرابا چل رہا ہو کہ عمران خان کے خلاف ملٹری ٹرائل آسان نہ رہے۔
کیا خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگ سکے گا؟
اس سوال پر پچھلے دو دنوں سے بات ہو رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علی امین گنڈاپور کو اپنی اس تقریر کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور کسی نہ کسی طریقے سے انہیں عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ ایک کیس میں پہلے ہی ان کے وارنٹ گرفتاری ایشو ہوئے ہیں۔ عدالتی معاملات میں نااہلی یا پھر گرفتاری کا معاملہ ہوجائے تو وزیراعلیٰ کے لیے مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔ گورنر راج کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔
عمران خان یا تحریک انصاف 18ویں آئینی ترمیم کے ناقد ہیں، مگر یہی ترمیم انہیں آج کل کے حالات میں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس ترمیم میں کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانے کا معاملہ اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی وفاقی حکومت آسانی سے ایسا نہیں کر سکتی۔ اگر کسی جماعت کی صوبے میں اکثریت ہو، ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہوں تو پھر گورنر راج لگانا تکنیکی طور پر ازحد مشکل ہے۔
کے پی میں تحریک انصاف کا بہت مضبوط اور بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ وہاں اس کے کھڑے کردہ کھمبے بھی آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ وہاں نظریاتی کیڈر بھی تگڑا ہے اور بہت سے ارکان اسمبلی نظریاتی پس منظر رکھتے ہیں۔ اس وقت جو صوبائی اسمبلی ہے اس میں الیکٹ ایبلز نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ سب صرف تحریک انصاف اور عمران خان کی وجہ سے جیتے ہیں۔سب سے اہم کہ وہاں یوتھ ووٹ بینک بھی بڑا ہے اور ان کی سوچ بڑی جارحانہ اور تلخ ہے۔
پھر اپوزیشن اتنی کمزور ہے کہ اگر تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک بنانا پڑے تو وہ بھی تیس چالیس کے قریب ارکان اسمبلی پر مشتمل ہو تب بات بنے گی۔ صوبائی تنظیم میں اختلافات ہیں، کئی گروپ اور دھڑے ہیں۔ عاطف خان، شہرام ترکئی، شکیل خان، جنید اکبر وغیرہ علی امین گنڈاپور سے اختلافات رکھتے ہیں۔ آٹھ ستمبر کی تقریر نے مگر وزیراعلیٰ کی مقبولیت بڑھائی ہے اور ان کے مخالفین دب گئے ہیں۔ کے پی اسمبلی میں سردست فارورڈ بلاک بنانا مشکل ہے، گورنر راج لگانا اس سے بھی زیادہ مشکل۔
وزیراعلیٰ گنڈاپور کو کسی تکنیکی یا قانونی حیلے سے ممکن ہے ہٹایا جانا ممکن ہو، مگر وہاں پوزیشن ایسی ہے کہ عمران خان کسی زیادہ جارحانہ اور زیادہ ہارڈ ہٹنگ عام رکن اسمبلی کو اگلے وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کر دے تو وہ آسانی سے بن جائے گا۔ تب کیا ہوگا؟
عمران خان کے خلاف اگلا قدم کیا اٹھایا جا سکتا ہے؟
بظاہر تو سب اشارے اسی طرف ہیں کہ عمران خان کے خلاف اب ملٹری ٹرائل کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچی۔ انہیں تین چار کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، اب ہر جگہ سزا ختم یا معطل ہوچکی۔ سائفر جیسے کیس میں وہ بری ہوگئے، عدت کیس ماتحت عدلیہ ہی سے فارغ ہوگیا، توشہ خانہ میں سزا معطل ہے۔ عبدالقادر ٹرسٹ ریفرنس اور توشہ خانہ ٹو ریفرنس اب نیب ترامیم کی بحالی کے بعد ایک طرح سے ختم۔ یعنی عمران خان کو کسی بھی سول کیس میں سزا نہیں دلوائی جا سکی۔ اب ایک ہی آپشن ہے، ملٹری کورٹس۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہاں سے بھی اگر سزا ہوگئی تو آخرکار معاملہ ہائی کورٹ ہی میں آئے گا اور پھر سپریم کورٹ میں۔ یعنی اعلیٰ عدلیہ سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ حکمران اتحاد البتہ یہ امید رکھ سکتا ہے کہ اس پراسیس کے دوران عمران خان کو مزید کئی ماہ تک جیل میں رکھا جا سکے گا۔ اس سے بڑھ کر خوش گمانی کا فائدہ کوئی نہیں۔
مشکل فیصلے، مشکل چیلنجز
حکومتی اتحاد اور مقتدر حلقوں کے لئے اس سب کچھ سے بڑے دو چیلنج مزید ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ فوری نہیں ہو رہا، لگتا ہے کچھ مزید باتیں ماننا پڑیں گی۔ اگر دو تین ہفتوں میں معاہدہ نہیں ہوا تو ڈالر پر دباﺅ آئے گا۔ روپیہ نیچے گر سکتا ہے۔ دوست ملک اور چین سے قرض رول اوور کرانے کے لیے مزید کوشش کرنا ہو گی۔ ریکوڈک کے حوالے سے نئی آپشنز پر غور ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے دباﺅ پر سبسڈیز مکمل ختم کیں تو عوامی احتجاج اور ناراضی کا ایک نیا طوفان امنڈ آئے گا۔ اس سب کچھ کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور بڑی اپوزیشن پارٹی کا احتجاج بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پولیٹیکل سائنس کا اصول یہ کہتا ہے کہ جب کوئی حکومت اتنے بڑے چیلنجز اور مسائل میں الجھی ہو تو وہ اپنی اپوزیشن کو پوری قوت سے کچل نہیں سکتی۔ آخرکار انہیں بات ہی کرنا ہوگی۔دعا یہی کرنی چاہیے کہ یہ بات دونوں فریقوں کو جلد سمجھ میں آجائے۔