کبھی بند تو کبھی سُست انٹرنیٹ، پاکستانی فری لانسرز کام کیسے چلا رہے ہیں؟
کبھی بند تو کبھی سُست انٹرنیٹ، پاکستانی فری لانسرز کام کیسے چلا رہے ہیں؟
جمعرات 19 دسمبر 2024 5:37
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
حالیہ کچھ عرصے کے دوران انٹرنیٹ کی بندش یا سست روی کی وجہ سے فری لانسرز کا کام متاثر ہوا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
’وی پی این اور دو وائی فائی کنکشنز سے کام جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، تاہم انٹرنیٹ کا مسئلہ برقرار رہے تو ایک اور وائی فائی آن کر لیتا ہوں، پھر بھی بات نہ بنے تو موبائل ڈیٹا کا سہارا لینا پڑتا ہے اور تاخیر سے ہی سہی کام پورا کر لیتا ہوں۔‘
یہ کہنا ہے راولپنڈی کے رہائشی عامر شہزاد کا، جو ایک فری لانسر ہیں اور مختلف غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ بطور سافٹ ویئر انجینیئر کام کر رہے ہیں۔
اُرددو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کی موجودہ صورت حال میں اگر آپ کا مکمل انحصار صرف فری لانسنگ پر ہو تو اس صورت میں آپ کی ملازمت پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی کیونکہ چاروں موبائل نیٹ ورکس اور وائی فائی کی سہولت کے باوجود بروقت کام مکمل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔‘
پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کے سبب جہاں فری لانسرز کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں وہیں عامر شہزاد کی طرح کئی دیگر فری لانسرز کسی نہ کسی طرح اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ کے تمام دستیاب ذرائع متبادل کے طور استعمال کرتے ہوئے معیار کے مطابق نہ سہی مگر پھر بھی کام چلا رہے ہیں۔‘
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ابراہیم امین نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں حالیہ کچھ عرصہ فری لانسرز کے لیے بہت مشکل رہا ہے۔ مختلف ذرائع سے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کرنے کے استطاعت رکھنے والے فری لانسرز تو اپنی گزر بسر کر رہے ہیں تاہم لوئر مڈل کلاس میں فری لانسرز کی بڑی تعداد ملازمتیں کھو چکی ہے۔‘
ان کے مطابق ‘وائی فائی، انٹرنئٹ ڈیوائسز اور موبائل ڈیٹا کے درمیان بار بار سوئچ کرنا پڑتا ہے۔‘
اسلام آباد کے ایک اور آئی ٹی فری لانسر تابش حیدر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ وہ گزشتہ تین برس سے دو یورپی ممالک اور امریکہ میں نجی کمپنیوں کو آئی ٹی سے جڑی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
ڈیڑھ برس قبل تک اُن کا آن لائن کام معمول کے مطابق چل رہا تھا، تاہم انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی سے اب مسائل کا سامنا ہے۔
’2023 کے اوائل تک گھر میں صرف وائی فائی کی ہی سہولت تھی لیکن پھر جب انٹرنیٹ کی بندش جیسے مسائل بڑھتے گئے تو موبائل ڈیٹا کو بھی متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔‘
تابش حیدر کے مطابق ’ایک موبائل سم سے شروع ہونے والا سلسلہ اب چار موبائل سمز اور دو وائی ڈیوائسز تک پہنچ چُکا ہے۔
اسی طرح انٹر پرینیور احمد خان اور مختلف پراجیکٹس فری لانسرز پر مشتمل اپنی ٹیم کی مدد سے مکمل کرتے ہیں۔
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ اپنا ایک پروجیکٹ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مکمل کر لیتے تھے تاہم سست انٹرنیٹ کی وجہ سے کام مکمل کرنے میں 15 دن لگ جاتے ہیں۔
ایک اور انٹرپرینیور اور فری لانسر ارزش اعجاز نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’انٹرنیٹ پر پابندیوں کا توڑ تو وی پی این سے ممکن ہو جاتا ہے تاہم جب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ مکمل بند کر دیا جاتا ہے تو اس صورت میں ہمارے پاس زیادہ آپشن نہیں ہوتے اور پھر ہم حکومت کے ہی رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔‘