غیررجسٹرڈ وی پی این پر پابندی فری لانسرز کو کیسے متاثر کرے گی؟
غیررجسٹرڈ وی پی این پر پابندی فری لانسرز کو کیسے متاثر کرے گی؟
منگل 19 نومبر 2024 14:18
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ حالیہ پابندیوں سے سب سے زیادہ فری لانسرز کے متاثر ہونے کی بات کی جا رہی ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے غیررجسٹرڈ وی پی اینز کے خلاف 30 نومبر سے کریک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد غیرقانونی وی پی اینز کو بلاک کیا جا سکے گا۔
پی ٹی اے کے حکام نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وی پی این کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جا رہا کیوں کہ اس سے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی صنعت براہ راست متاثر ہو گی۔ صرف غیررجسٹرڈ وی پی این بلاک کیے جائیں گے۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک (وی پی این) بنیادی طور پر انٹرنیٹ کی دنیا میں استعمال ہونے والا وہ طریقہ ہے جس کے تحت آپ انٹرنیٹ سے منسلک تو ہوتے ہیں لیکن آپ کی شناخت تبدیل کر دی جاتی ہے۔ جس کمپنی کا بھی آپ وی پی این استعمال کر رہے ہیںم وہ وی پی این آپ کی شناخت کو چھپا کر اپنے سرور سے آپ کو ایک نئی شناخت جاری کر دیتا ہے۔
انٹرنیٹ پروٹوکول یا آئی پی ایڈریس میں ڈیوائس کی لوکیشن، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، انٹرنیٹ سپیڈ، ملک، صوبہ، شہر اور پوسٹل ریجن کی ساری معلومات ہوتی ہیں۔ وی پی این کی مدد سے یہ ساری کی ساری معلومات تبدیل کر دی جاتی ہیں۔
کاروبار کیسے وی پی این کے ساتھ منسلک ہے؟
پاکستان میں کئی طرح سے کاروبار وی پی این سے منسلک ہیں۔ بینکوں کا نظام بھی اپنی سکیورٹی کے لیے اپنے وی پی این استعمال کرتا ہے۔ کئی بڑی کمپنیاں، کال سینٹرز اور فری لانسرز بڑے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ عام طور بڑی کمپنیوں نے اپنے وی پی این رجسٹرڈ کروا رکھے ہیں۔ وی پی این رجسٹریشن کا کام پہلے پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کرتا تھا تاہم اب یہ ذمہ داری پاکستان ٹیلی کمینیکیشن اتھارٹی کے پاس ہے۔
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ حالیہ پابندیوں سے سب سے زیادہ فری لانسرز کے متاثر ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔
ملک میں فری لانسرز کی تربیت کرنے والی ایک کمپنی این ایبلرز کے چیف ایگزیکٹو ثاقب اظہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے ملک میں پے پال ہے اور نہ ہی ایمیزون اور ای بے جیسی کمپنیوں نے یہاں دفاتر نہیں بنائے ہیں۔ یہ بہت بڑے نیٹ ورکس ہیں جن کی مدد سے پوری دنیا سے لوگ ڈراپ شپنگ سے پیسہ کما رہے ہیں۔ ان کمپنیوں پر اکاؤنٹ بنا کر آپ پاکستان سے نہیں چلا سکتے۔ اگر چلائیں گے تو وہ بند ہو جائیں گے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر وی پی این کا استعمال ہمارے نوجوان کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے فری لانسرز میں زیادہ تر وہ ہیں جو ابھی سیکھ رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی سروسز دیتے ہیں، اس کے لیے فری وی پی این ان کا بہت بڑا سہارا ہیں۔ فری وی پی این میں سپیڈ کے مسائل کی وجہ سے ایک شخص کئی کئی وی پی این استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ایک کی سپیڈ کم ہو تو وہ دوسرا استعمال کر لیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وی پی این اتنے مہنگے ہیں کہ ماہانہ چالیس پچاس ڈالر فیس بھرنا بہت مشکل ہے۔‘
’فیصلہ سازوں کو آئی ٹی کا سرے سے علم ہی نہیں‘
سدرہ علی ایمیزون پر ڈراپ شپنگ سے پچھلے کچھ عرصے سے منسلک ہیں اور وہ 24 گھنٹے وی پی این کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میری سمجھ سے تو باہر ہے کہ یہ سب کس لیے کیا جا رہا ہے۔ میں تو پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر گئی کہ چلو ایک دفعہ دیکھوں تو سہی کہ رجسٹریشن کا عمل ہے کیسا۔ لیکن وہ تو ذاتی معلومات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طرح کا کام میں کرتی ہوں، وہ وہاں کسی کیٹیگری میں آتا ہی نہیں ہے۔ میں ہوں تو فری لانسر لیکن میں کسی ایک کمپنی کے لیے کام نہیں کرتی۔ وہاں یہ تک پوچھا گیا ہے کہ جس کمپنی کے لیے آپ کام کرتے ہیں۔ اس کی ساری تفصیلات حتیٰ کہ فون نمبرز تک دیے جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ صورت حال کچھ ایسے دماغوں نے کی ہے جو فری لانسننگ تو کیا آئی ٹی کے شعبے کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔‘
’حکومت کو اندازہ نہیں کہ وہ کتنے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے‘
اسد علی کا تعلق لاہور سے وہ بھی آج کل اضطراب کی کیفیت میں ہیں۔ انہوں نے بتایا ’یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا۔ اس سے لوگ بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گے اور میرا خیال ہے کہ حکومت کو اس بات کا قطعی کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کتنے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ اگر یہ بڑی کمپنیاں پاکستان نہیں لا سکتے تو جو لوگ صفر لاگت سے اپنی سروسز سے کام کر کے ڈالر ملک میں لا رہے ہیں، انہیں کیوں پریشان کر رہے ہیں۔‘
این ایبلرز کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اس وقت 35 سے 40 لاکھ فری لانسرز ہیں جن کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ جبکہ گزشتہ چار ماہ میں آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر پاکستان میں آئے ہیں۔
ثاقب اظہر کہتے ہیں کہ ’حکومت کو چاہیے تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہلچل مچا دینے سے پہلے ایک مرتبہ انڈسٹری سے مشاورت کر لیتے تو اچھے طریقے سے بھی یہ معاملہ کیا جاسکتا تھا۔ ابھی تو صرف بم پھوڑا گیا ہے۔ اور میرا خیال ہے اس بابت ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘