’دیوار‘ اور ’شعلے‘ کے درمیان اپنی پہچان بنانے والی فلم ’موسم‘
’دیوار‘ اور ’شعلے‘ کے درمیان اپنی پہچان بنانے والی فلم ’موسم‘
اتوار 29 دسمبر 2024 15:58
یوسف تہامی، دہلی
گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’موسم‘ مصنف اے جے کرونن کے ناول ’دی جوڈاز ٹری‘ پر مبنی ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب)
بالی وڈ کے معرف فلمساز، نغمہ نگار اور ہدایت کار گلزار کی فلم ’موسم‘ اُس سال ریلیز ہوئی جس سال امیتابھ بچن کی فلم ’دیوار‘ اور آج تک کی ہٹ فلموں میں شامل ’شعلے‘ آئی تھیں تاہم ’موسم‘ نے اپنی ایک مخصوص پہچان بنائی۔
آج اس فلم کی ریلیز کو تقریباً 50 برس ہو گئے ہیں لیکن اس کی پسندیدگی ابھی تک کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ فلم ایک ایسی تھیم پر بنائی گئی جو بہت پرانی ہے لیکن سنجیو کمار اور شرمیلا ٹیگور کی یہ فلم آج بھی بہت سے لوگوں کی پسندیدہ فلموں میں شامل ہے۔
اس فلم میں جس خوبی کے ساتھ دو محبتوں (رومانی اور پدرانہ) کو پیش کیا گیا ہے اس کی مثال بالی وڈ میں نہیں ملتی ہے۔ تقریباً اسی تھیم پر جب سنہ 1991 میں انیل کپور اور شری دیوی کی اداکاری والی یش چوپڑا کی فلم ’لمحے‘ آئی تھی تو اسے لوگوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم ہے۔
فلم ’موسم‘ کئی اعتبار سے یادگار فلم ہے۔ یہ معروف سکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار گلزار کی وہ فلم ہے جس پر انہیں بہترین ہدایت کار کا فلم فیئر ایوارڈ اور بعد میں نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ اگرچہ شرمیلا ٹیگور کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ نہ مل سکا لیکن ’موسم‘ کو بہترین فلم کا ایوارڈ ضرور ملا۔ تاہم بعد میں شرمیلا ٹیگور کو اس فلم میں اداکاری کے لیے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ فلم چونکہ 29 دسمبر 1975 کو ریلیز ہوئی تھی اس لیے یہ مارچ میں ہونے والے فلم فیئر ایوارڈ میں شامل نہ کی جا سکی اور اسے اگلے برس 1977 کے ایوارڈ میں شامل کیا گیا جہاں اسے دو ٹاپ ایوارڈز ملے۔ لیکن اس سے قبل والے ایوارڈ میں ’شعلے‘ پر ’دیوار‘ سبقت لے گئی اور تقریباً تمام بڑے ایوارڈ اسی کے حصے میں آئے۔
گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’موسم‘ مصنف اے جے کرونن کے ناول ’دی جوڈاز ٹری‘ پر مبنی ہے جس میں ایک شخص ایک عرصے بعد اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے نکلتا ہے جس کی وجہ سے ایک سے زیادہ خواتین کی زندگی متاثر اور تباہ ہوتی ہے۔
معروف فلم کریٹک ضیا السلام نے اپنے ایک پرانے مضمون میں لکھا تھا کہ اگر ہم کسی فلم کی ریلیز کے اتنے سال بعد اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں دوبارہ دیکھنے والوں کو راغب کرنے کے لیے واقعی قابل ذکر چیز ہونی چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ ’درحقیقت گلزار کی فلم ’موسم‘ ایک لذیذ دعوت نظارہ تھی اور یہ ایک ایسا عمدہ آرکسٹرا ہے جس میں بمشکل ہی کوئی غلط نوٹ ہو۔ اس میں ایک ایسی کاسٹ تھی جس میں سیکس کی اپیل اور سنجیدگی کا نہایت صحیح امتزاج تھا۔‘
یہ فلم شرمیلا ٹیگور کے لیے ایک چیلنج تھی کیونکہ شادی کے بعد کسی اداکارہ کا اس طرح کے کردار میں اس زمانے میں آنا اور خود کو منوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن ’میرے عشق کے لاکھوں جھٹکے‘ جیسے گیت پر جس طرح شرمیلا نے جھٹکے دکھائے وہ بے ہودہ نظر اس لیے نہیں آئے کہ سنجیو کمار کی سنجیدگی نے اسے سنبھال لیا اور ایسا لگا کہ ناظرین نے بھی اسے سنبھال لیا۔ کیونکہ کرن جوہر نے ایک انٹرویو کے دوران فلم ’لمحے‘ کے متعلق کہا تھا کہ ’یہ فلم 15000 میٹر تک تو بہت عمدہ چلتی ہے لیکن آخر کے 500 میٹر میں دم توڑ دیتی ہے اور لوگ اسے قبول نہیں کر پاتے، شاید اس کے لیے ان کی ذہنی اور سماجی جبلت ذمہ دار ہے۔‘
لیکن ’موسم‘ میں شرمیلا نے یہ ثابت کیا ہے کہ شادی کے بعد بھی ہیروئن خود کو منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ کہ اس کا کیریئر ختم نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ بہت ساری فلموں میں آئیں اور آج بھی گاہے بگاہے دادی نانی کے کردار میں وہ نظر آ جاتی ہیں۔
اس فلم میں مدن موہن کے گیت اور سلیل چودھری کی موسیقی ہے جبکہ بھوپیندر کی آواز میں گیت ’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘ آج بھی لوگوں کو ان کی کسی خیالی دنیا کی سیر کرانے کے لیے کافی ہیں۔
اس گیت میں اردو کے معروف شاعر مرزا غالب کے مصرعے کے ساتھ جو تجربہ کیا گیا ہے وہ انتہائی کامیاب نظر آتا ہے اور پھر گلزار کو بعد میں بہت جگہ ایسا کرتے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
فلم ’موسم‘ بالی وڈ کے میلو ڈرامہ کی معمول کی خوراک کے ساتھ ہے جب ایک نوجوان ڈاکٹر اپنی طالب علمی کے زمانے میں معروف سیاحتی مقام دارجلنگ میں ہوتا ہے تو اسے ایک مقامی عورت چندا سے محبت ہو جاتی ہے۔ پھر اسے کلکتے کے لیے روانہ ہونا پڑتا ہے اور وہ واپس آنے کا وعدہ کرتا ہے، لیکن وہ وقت پر وعدہ وفا نہیں کر پاتا ہے۔
25 سال گزرنے کے بعد احساس جرم اور تجسس کی خاطر وہ دوبارہ دارجلنگ واپس آتا ہے۔ وہ یہ جان کر افسردہ ہو جاتا ہے کہ اس کی محبت اب نہیں رہی اور اس کے ہاں ایک بیٹی ہوئی تھی جو ایک رشتے دار کی ہوس کا شکار بن کر کوٹھے پر پہنچ جاتی ہے۔ وہ لڑکی کجلی ہوتی ہے۔
چنانچہ چندا اور کجلی دونوں کا کردار شرمیلا ٹیگور نے نبھایا ہے۔
موسم فلم میں امرناتھ اور چندا کے درمیان پہلی محبت دکھانے کے لیے فلیش بیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم امرناتھ اور کجلی کے درمیان کے تعلق کو گلزار نے رشتوں کو سنبھالنے کے اپنے ماہرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ امرناتھ یعنی سنجیو کمار کجلی کو اپنی بیٹی کے طور پر دیکھتا ہے اور اسے کوٹھے کی ناخوشگوار دنیا سے بچانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ سنجیو کمار کی پدرانہ محبت کو رومانی سمجھتی ہے اور کجلی اس کے ساتھ ایک ایسی زندگی کا تصور کرنا شروع کر دیتی ہے جہاں وہ کسی دوسری عورت کی طرح معمول کی زندگی گزار سکے۔
کجلی کے متعلق اس کا احساس جرم مزید بڑھ جاتا ہے کہ اگر وہ چندا کو نہ چھوڑتا تو کجلی کبھی کوٹھے پر نہ پہنچتی۔ بہر حال اخیر میں کجلی اس کے ساتھ کلکتے جانے والی سواری میں ایک بیٹی کی طرح سوار ہو جاتی ہے اور یہ فلم کے ساتھ ساتھ فلم کے ناظرین کے لیے بھی کتھارسس کا سبب بنتی ہے۔