Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صرف دو ہفتے‘ بلنکن کا بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی پر زور

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ دو ہفتے کے اندر معاہدہ طے پا جائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر جو بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے پہلے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے حتمی کوشش پر زور دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو جاری ہونے والا یہ بیان حماس کے عہدیدار کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں روئٹرز کو بتایا گیا تھا کہ معاہدے کے تحت رہا کیے جانے والے 34 یرغمالیوں کی فہرست بنا لی گئی ہے۔
انٹونی بلنکن سے نیوز کانفرنس میں جب پوچھا گیا کہ کیا جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے؟
تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس موجود باقی وقت جو کہ دو ہفتے کا ہے، کے دوران اس کو مکمل کیا جائے۔‘
اسرائیل نے اپنے اوسط درجے کے عہدیداروں کی ٹیم مذاکرات کے لیے قطر بھجوائی ہے جو کہ قطر اور مصر کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ جو اس سے قبل بھی مذاکرات کے طویل سلسلے کی قیادت کرتے رہے ہیں، کے بارے میں امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ اس بات چیت میں بھی شامل ہو جائیں گے۔
تاہم اسرائیل کے وزیراعظم آفس کی جانب سے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے سخت بیان دے چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کہ فریق بات چیت میں کہاں تک پہنچے ہیں، تاہم ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان مطالبات میں تبدیلی لائی گئی ہے جن کی وجہ سے ایک سال سے زائد عرصے تک جنگ بندی کا معاہدہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ 20 جنوری کو ان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل اگر غزہ میں حماس کی جانب سے سے یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا نہ کیا گیا تو اس کی انتہائی ’بھاری قیمت‘ مشرق وسطیٰ کو چکانا پڑے گی۔
اور اس بیان کو بھی اب خطے میں جنگ بندی کے لیے ایک غیر سرکاری ڈیڈلائن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
غزہ کے شعبہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک اسرائیل کے حملوں میں 46 ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا تھا جو اب تک جاری ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے میں 12 سو افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ تمام یرغمالیوں کی رہائی تک سخت کارروائی جاری رہے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

100 سے زائد یرغمالیوں کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں ہی ہیں اور حماس کا کہنا ہے کہ ان کو تب تک رہا نہیں کیا جائے گا جب تک جنگ بندی نہیں ہو جاتی اور اسرائیلی فوج علاقے سے نکل نہیں جاتی۔
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ تب تک حملوں کا سلسلہ نہیں روکے گا جب تک بطور ایک عسکری گروہ کے حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور یرغمالی رہا نہیں ہو جاتے۔
حماس کے ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا تھا معاہدے کی صورت میں ابتدائی مرحلے میں رہا کیے جانے والے 34 یرغمالیوں کی فہرست مرتب کر لی گئی ہے۔
عہدیدار کی جانب سے فراہم کی جانے والی فہرست میں خواتین اہلکار، عمررسیدہ افراد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے آفس کی جانب سے فہرست کے بارے میں کہا گیا ہے یہ جولائی میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر اور مصر کو بھی فراہم کی گئی تھی اور حماس کی طرف سے ابھی تک اسرائیل کو یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ آیا اس میں موجود افراد زندہ ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام یرغمالیوں کی رہائی تک سخت کارروائی جاری رکھی جائے گی۔‘

شیئر: