Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت سے اس وقت آرمی چیف کی ملاقات اہم کیوں؟

جنرل عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات میں کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے۔ (فوٹو: آئی ایس پی آر)
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلی اور گورنر کے ساتھ ساتھ صوبے کی سیاسی قیادت سے پیر کو ملاقات کی تھی جس کے دوران صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر مفصل گفتگو ہوئی۔  
اس ملاقات میں شریک قومی وطن پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر سکندر شیرپاؤ نے اردو نیوز کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات میں خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین نے اپنے خدشات اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کی۔
آرمی چیف سے ملاقات میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، اے این پی، قومی وطن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور صوبے کی دیگر جماعتوں کے رہنما موجود تھے۔
سکندر حیات شیرپاؤ نے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں آرمی چیف کا تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنا خوش آئند ہے۔
’اس ملاقات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی قائدین نے اپنے خدشات سامنے رکھے، دوسرا یہ کہ دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں وفاق اور صوبہ اور ریاست ایک پیچ پر نظر آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل قلع قمع کرنے کے حوالے سے اجلاس میں شریک تمام جماعتوں کا موقف واضح اور ایک تھا۔
سینیئر صحافی صفی اللہ کے مطابق ’یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا۔ عام طور پر ایسے اجلاس میں وزیراعلیٰ، گورنر اور پولیس کے سربراہ شریک ہوتے ہیں مگر اس ملاقات میں سیاسی قائدین کے علاوہ سابق وزراء اعلیٰ کو بھی بلایا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا یہ سارے وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی اہم منصب میں رہ چکے ہیں،  اسی لیے یہ ملاقات انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

سکندر خیات شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی قائدین نے اپنے خدشات سامنے رکھے۔ (فوٹو: آئی ایس پی آر)

’ایک تو اندرونی معاملات کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی، دوسرا خطے کی بدلتے صورتحال پر بھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سابق اور موجودہ وزراء اعلیٰ کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا گیا۔
سکندر شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے پر بھی بات چیت کی گئی اور اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ رسمی اور غیر رسمی طور پر افغان حکام کے ساتھ رابطے رہنا چاہیے۔
’اجلاس میں شریک سیاسی رہنماؤں کی رائے تھی کہ ریاست کی رٹ قائم کرنا اور عوام کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘
صفی اللہ کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف افغان حکام کی جانب سے سخت بیانات آ رہے ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ بھی کابل کے حوالے سے سخت موقف اپنا رہے ہیں توایسی صورت حال میں آرمی چیف کا سیاسی قائدین سے ملاقات بہت اہمیت کا حامل ہے جس کا ان تمام معاملات سے براہ راست تعلق ہے۔‘
سکندر حیات شیرپاؤ کے مطابق پچھلے کئی مہینوں سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہے۔

سینیئر صحافی صفی اللہ کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا جس میں سابق وزرائے اعلی بھی موجود تھے۔ (فوٹو: آئی ایس پی آر)

 ’اگر گزشتہ سال کے سی ٹی ڈی کے اعداد و شمار ہی کو دیکھا جائے تو روزانہ اوسطاً دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے۔ اس لیے اس حوالے سے بیٹھک کی ضرورت تھی تاکہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف کی طرف سے ایک اچھا اقدام تھا۔ سیاسی قائدین کو اعتماد میں لیا گیا اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ اب ایشو (امن و امان) کے اوپر فوکس کیا جائے گا۔‘
اس ملاقات کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے منگل کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات میں کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سےہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔
’آرمی چیف نے کہا کہ افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کرتے، آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صرف انٹیلیجینس کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کاروائی کی جاتی ہے۔‘

شیئر: