Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی تاریخی عمارت جو کانگریس کا دفتر ہوا کرتی تھی

کراچی کے قدیم علاقے رتن تلاؤ میں ایک پیلی عمارت میں بچے استاد کے پیچھے زور زور سے سبق دہرا رہے ہیں۔ یہ عمارت شہر کے سینکڑوں سرکاری سکولوں میں سے ایک پرائمری سکول ہے، لیکن قریب جانے پر اس پر لگی ہندی تحریر بتاتی ہے کہ یہ عمارت ایک تاریخی مقام ہے۔ عمارت کے سامنے کپڑے کی دکان پر کام کرنے والے محمد امین نے ایک اہم تختی کی موجودگی کا ذکر کیا، لیکن اس کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔
ابھی ہم دیوار سے نظر ہٹا ہی نہیں تھے کہ اچانک زمین میں دھنسے ہوئے سنگ مرمر پر نظر پڑی، جس پر ہندی زبان میں کچھ لکھا تھا۔ مٹی ہٹانے پر تختی مکمل طور پر نظر آئی، تو محمد امین نے اثبات میں سر ہلایا۔
پرانے کراچی کی گلیوں میں ہر پتھر، ہر دیوار اور ہر چہرہ ایک کہانی سناتا ہے۔ رتن تلاؤ کی یہ عمارت بھی اس شہر کے ماضی کی ایک پوشیدہ حقیقت کو آشکار کرتی ہے۔ اس پیلی عمارت کی ایک تختی پر برصغیر کی ایک تاریخ ساز تحریک چلانے والوں کا ذکر موجود ہے، جن کی سربراہی میں کانگریس نے آزادی کی جنگ لڑی۔
یہ عمارت کسی زمانے میں کانگریس پارٹی کا دفتر تھی۔ تقسیم ہند سے قبل یہ دفتر ایک اہم سیاسی مرکز تھا، جہاں کانگریس کے سرگرم کارکن اور رہنما جمع ہوتے تھے، اور اس دفتر سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ہندوستان میں اہم پیغامات جایا کرتے تھے۔
عمارت میں قائم سکول کی پرنسپل رضوانہ شجاعت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ عمارت جب ان کے حوالے کی گئی تو اس وقت اس کی حالت بہت خراب تھی، علاقے میں موجود ڈینٹرز یہاں گاڑیاں کھڑی کیا کرتے تھے اور گندگی اور کچرے کے ڈھیر ہر طرف پھیلے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں اس عمارت کی یہ حالت دیکھ کر دُکھ ہوتا تھا کیونکہ یہ عمارت کبھی اس خطے میں تحریک آزادی کی ایک توانا آواز کے طور پر جانی جاتی تھی۔ یہاں کانگریس کا دفتر تھا جہاں سے ملک کی آزادی کے لیے صبح شام کام کیا جاتا تھا۔‘
کراچی شہر یہ علاقہ پرانا کراچی کہلاتا ہے، وہ کراچی جو کبھی بہت کم آبادی کا شہر ہوا کرتا تھا، مچھیروں کی ایک بستی سے شہر کی شکل اختیار کرنے والا کراچی شہر چند ہزار افراد کی آبادی کا ہی شہر تھا۔ کراچی کی بندرگاہ سے شروع ہونے والا شہر، کھارادر، لیاری، میٹھا در، بولٹن مارکیٹ، رنچھوڑ لائن، گارڈن، لائٹ ہاؤس، پاکستان چوک اور رتن تلاؤ تک محیط تھا، اس سے آگے کنٹونمنٹ کے علاقے تھے جہاں برٹش فوج کے افسران اور اہلکاروں سمیت اعلیٰ شخصیات رہائش پذیر تھیں۔
ان علاقوں میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ جو ناصرف کاروباری شخصیات تھیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ بھی تھیں۔
تاریخ دان اور کراچی پر کئی کتابیں لکھنے والے مصنف رمضان بلوچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی کا یہ علاقہ ماضی میں کانگریس کا ایک مضبوط گڑھ تھا۔ کانگریس پارٹی کی مقبولیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں سے کئی بار کانگریس کے کونسلر منتخب ہوئے۔ کراچی کے شہریوں نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ان کا سیاسی شعور بہت بلند تھا۔‘
’اگر ہم کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہاں کانگریس پارٹی کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں مہاتما گاندھی کی شخصیت کا بڑا اثر تھا، اور گاندھی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کراچی کا دورہ ایک علامتی اہمیت رکھتا تھا۔‘

سکول کی پرنسپل میڈم رضوانہ شجاعت کے مطابق ’اس عمارت کا فرش اور دیواریں آج بھی اپنی پرانے انداز میں موجود ہیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

رمضان بلوچ نے مزید بتایا کہ مہاتما گاندھی نے اپنے دورے کے دوران کراچی کی مختلف جگہوں کا دورہ کیا تھا اور اس شہر کے باشندوں کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے پرانے علاقے جیسے کہ رتن تلاؤ، لیاری اور گارڈن سمیت دیگر علاقے آج بھی گاندھی کے اثرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہاں کی سڑکوں کے نام، عمارتوں کی شکل و صورت اور گیلریوں میں گاندھی کی تصاویر اس بات کی غماز ہیں کہ اس شہر میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں کراچی کا اہم کردار تھا۔
سکول کی پرنسپل میڈم رضوانہ شجاعت جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس تاریخی عمارت سے وابستہ ہیں، نے بتایا کہ انہیں بھی یہی بتایا گیا تھا کہ یہ عمارت کبھی کانگریس کا دفتر ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد یہ دفتر ختم ہو گیا اور اس عمارت کو ایک پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں سکول کا ماحول ہے، مگر عمارت کے اندر اور باہر آج بھی وہ نشانیاں موجود ہیں جو ہمیں ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔
’اس عمارت کا فرش اور دیواریں آج بھی اپنے پرانے انداز میں موجود ہیں، اور ان میں کہیں کہیں وہ اشارے ملتے ہیں جو اس جگہ کی تاریخ کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہاں کے دروازے اور کھڑکیاں، دیواروں پر چڑھتے ہوئے درخت اور ان کی شاخوں کے درمیان موجود چھوٹی چھوٹی دراڑیں، جیسے ہمیں بتا رہی ہوں کہ یہ جگہ کبھی کسی کے خوابوں اور جدوجہد کی گواہ تھی۔‘
کراچی کا ماضی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے ہندوستان کا ایک اہم حصہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کانگریس اور اس کے کارکن اپنی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے یہاں کے عوام کو متحرک کر رہے تھے اور آزادی کی جدوجہد میں کراچی کا کردار بہت اہم تھا۔

رمضان بلوچ نے کہا کہ ’گاندھی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کراچی کا دورہ ایک علامتی اہمیت رکھتا تھا۔‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

آج کے اس جدید کراچی میں، جہاں ہر طرف جدید عمارتیں اور بلند و بالا فلک بوس عمارتیں نظر آتی ہیں، وہاں اس پرانے سکول کی عمارت ہمیں ایک یاد دہانی کراتی ہے کہ کبھی اس شہر میں ایک خواب تھا، ایک تحریک تھی، اور ایک مقصد تھا۔ یہ عمارت صرف ایک سکول نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثہ ہے جو ہمیں اپنے ماضی سے جوڑے رکھتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ آزادی کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کی ضرورت تھی۔
رتن تلاؤ کی یہ عمارت، اور اس کے آس پاس کے علاقے آج بھی اس بات کا گواہ ہیں کہ کراچی نے آزادی کی جدوجہد میں کتنی بڑی قربانیاں دیں۔ یہاں کے لوگ نہ صرف اپنے سیاسی حقوق کے لیے لڑے بلکہ اپنی ثقافت، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کے لیے بھی جنگ لڑتے رہے۔ یہ عمارت نہ صرف کانگریس کا دفتر تھی بلکہ آزادی کی ایک علامت بھی تھی جو آج بھی کراچی کی گلیوں میں زندہ ہے۔
اور جب ہم اس عمارت کی دیواروں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد آتا ہے کہ تاریخ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے آ جاتی ہے، جیسے رتن تلاؤ کی یہ عمارت آج ہمیں اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھا رہی ہے۔

شیئر: