اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ کیا آپ انڈیا کی پسماندہ ریاست بہار کے ایک قصبے موتیہاری میں 25 جون 1903 کو پیدا ہونے والے ایرک آرتھر بلیئر کو جانتے ہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔
لیکن اگر کوئی پوچھے کہ کیا آپ جارج اورویل کو جانتے ہیں یا ان کا نام سنا ہے تو آپ میں سے بہت سے لوگ ہامی بھریں گے اور بہت سے لوگوں نے تو ان کی تصانیف بھی پڑھ رکھی ہوں گی۔
جارج اورویل نے آج سے پورے 75 سال قبل 21 جنوری 1950 کو لندن میں آخری سانسیں لیں لیکن ان کی سانسیں آج بھی زمانے کو محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے وقت کی نبض پر جس نباض کی طرح انگلی رکھی اس نے انہیں آج تک زندہ جاوید رکھا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’تھری ایڈیٹس‘ جس کی فلم میکنگ بھی دلچسپی سے خالی نہیں
Node ID: 882986
-
فلم موسم جس نے ’دیوار‘ اور ’شعلے‘ کے درمیان اپنی پہچان بنائی
Node ID: 883643
-
بہت سے لوگ آج کی دنیا کو ’اورویلین ایرا‘ یا عہد اورویل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا اس لیے کہ انہوں نے ایسی تصانیف چھوڑی ہیں جو کسی مجذوب کی بڑ لگتی ہیں۔
جارج اورویل کی زندگی پر اگر طائرانہ نظر بھی ڈالیں تو وہ پراسراریت سے پُر اور ہر دم رواں لگتی ہے۔ ان کے کسی ایک پہلو کا بھی احاطہ کر پانا بڑی بات ہوگی۔
اورویل کے والد انڈیا میں برطانوی راج میں تعینات تھے اور وہ افیون کے محکمے میں تھے، جہاں وہ انڈیا میں افیون کی پیداوار اور اسے چین بھیجنے کے ذمہ دار اور اس کی نگرانی پر مامور تھے۔
موتیہاری میں وہ گھر اب بھی موجود ہے جہاں اورویل پیدا ہوئے تھے۔ موتیہاری سے تعلق رکھنے والے اور اورویل کے پیدائشی گھر کو بچانے کی تحریک میں شامل ایک بنگالی نژاد نوجوان وشواجیت مکھر جی بتاتے ہیں کہ وہ اورویل کی یادگار کو اس لیے بچانا چاہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کا شہر دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔
بہر حال ننھا بلیئر ایک سال کی عمر میں اپنی بہن اور والدہ کے ساتھ لندن منتقل ہو گیا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ان کی ساری تعلیم انگلینڈ میں ہوئی۔ انہیں ان کا ابتدائی سکول اس لیے پسند نہیں آیا کہ اس نے انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ نسبتا غریب خاندان سے آتے ہیں۔

بہر حال کالج میں انہوں نے فرانسیسی زبان معروف مصنف آلڈس ہکسلے سے سیکھی، جن کی انگریزی زباندانی کا چرچا تھا۔
انہوں ایک سپاہی، ایک سکول ٹیچر، ایک یومیہ گھریلو ملازم اور مختلف نام کے ایک گمنام صحافی کے طور پر کام کیا۔
انہوں نے برما میں ملازمت کے لیے درخواست اس لیے دی کہ ان کی دادی وہاں تھیں۔ وہیں انہوں نے برطانوی فوجیوں کی طرح مونچھ رکھ لی۔
ان کی پہلی تصنیف سکلین ڈائری کو کسی نے بھی شائع کرنے سے انکار کر دیا لیکن پھر وہ ’ڈاؤن اینڈ آؤٹ ان پیرس اینڈ لندن‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے جس موضوع کو پیش کیا تھا اس کے پیش نظر انہوں نے اسے اپنے اصلی نام کے بجائے قلمی نام کے تحت شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ ان کے خاندان والوں کو خفت نہ جھیلنی پڑے۔
چنانچہ انہوں نے نومبر میں ایک خط میں چار نام تجویز کیے جس کے تحت ان کی کتاب شائع کی جانی تھی۔ یہ چار نام پی ایس برٹن، کینتھ مائلز، جارج اورویل اور ایچ لیوس آلویز تھے۔ انہوں نے بالآخر جارج اورویل کا قلمی نام اپنایا۔
اس دوران انہوں نے کئی جگہ ملازمت کی اور مختلف جرائد اور رسائل کے لیے لکھتے رہے۔ بی بی سی کی ایسٹرن سروس میں نوکری کی اور ایک ایسے ادبی حلقے کا حصہ رہے جس کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔
انہوں نے اسی دوران ایک کتاب ’اینیمل فارم‘ لکھی جسے کوئی بھی شائع کرنے کو تیار نہ تھا، کیونکہ یہ بظاہر سویت روس پر براہ راست تنقید تھی اور روس عالمی جنگ میں حلیف تھا۔
بہر حال اس کتاب کی اشاعت نے اورویل کو ادبی دنیا کے نقشے پر ابھرتے ستارے کی طرح پیش کیا۔
وہ جہاں جاتے اپنے لیے نوٹس لکھتے جاتے۔ چنانچہ جب وہ برما میں تھے تو انہوں نے ایک ہاتھی کا شکار کیا تھا اور بعد میں اسی واقعے پر مبنی انہوں نے 'شوٹنگ این الیفینٹ‘ کے عنوان سے ایک تحریر چھوڑی ہے۔
انہوں نے بھکاریوں اور نچلے طبقے کی زندگی پر لکھنے کے لیے ان سے ربط پیدا کیا اور ان کے علاقے میں آنے جانے لگے اور ان میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ اورویل نے ان کے خلاف امتیازی رویے کی مذمت کی اور اسے ختم کرنے کی اپیل کی۔
1929 میں اورویل شدید بیمار پڑے کیونکہ وہ موٹر سائیکل پر بھیگ گئے تھے اور انہیں نمونیا ہو گیا تھا۔ ان کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ وہاں سے واپسی پر انہوں نے ’ہاؤ دی پور ڈائی‘ یعنی غریب کیسے مرتا ہے لکھی۔ اس کے بعد وہ کبھی پڑھانے کے لیے نہیں گئے۔
اسی طرح جیل میں کرسمس کا تجربہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے دانستہ طور پر خود کو قید کروایا لیکن دو دن کے بعد پولیس نے انہیں اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کا جرم کوئی زیادہ سنگین نہیں تھا۔
بائیں بازو کے نظریات کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ملک کے خفیہ اداروں کی نظر میں تھے اور ان کی نگرانی کی جاتی تھی۔
انہوں نے چائے بنانے کے مختلف طریقوں پر بھی ایک تصنیف چھوڑی ہے جس میں کم از کم 11 طریقوں کا ذکر کیا ہے۔
ان کی شہر آفاق کتاب ’1984‘ ہے جس میں انہوں نے ایک مطلق العنان ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ اینیمل فارم اور 1984 ان کی زندگی کا نچوڑ ہیں جس میں انہوں دو مختلف پیرایوں میں سوشلزم، فاشزم، سامراجیت اور سماجی نظام پر اپنے خیال کو پیش کیا ہے۔
ان کی کتاب 1984 ایسی ہے جس میں انہوں نے ایک ایسے ماحول کا نقشہ کھینچا ہے جسے آپ آج جس ملک میں چاہیں، دیکھ سکتے ہیں۔
