Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اچانک دولت ہاتھ لگنے کے مسائل، ’سڈن ویلتھ سینڈروم‘ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اچانک دولت ملنے پر انسان کو نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے (فوٹو: شٹر سٹاک)
فلموں میں اکثر ایسے مناظر جن میں کسی کے ہاتھ بڑا خزانہ لگ جاتا ہے یا پھر نوٹوں سے بھرا بیگ، دیکھتے ہوئے انسان سوچتا ہے کہ کاش اس کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے۔
ایسی خواہش رکھنا بری بات نہیں اور نہ ہی ناممکن ہے تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک نفسیاتی بیماری بھی اس شخص پر حملہ آور ہو سکتی ہے جس کو ’سڈن ویلتھ سینڈروم (ایس ڈبلیو ایس)‘ کہا جاتا ہے یعنی سادہ الفاظ میں اس کو ’نودولتی کا بھوت‘ بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں انسان سے کچھ ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جو خود اسی کے خلاف جاتی ہیں۔
اس لیے یکدم امیر بننے کی خواہش رکھنے کے ساتھ ساتھ ابھی سے سمجھ لیجیے کہ اس وقت اس سے کیسے بچنا ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگنے پر ہی ایسا ہو بلکہ لاٹری لگنے، کاروبار میں یک دم بڑا فائدہ ہونے یا پھر اچانک تنخواہ بہت زیادہ بڑھ جانے پر بھی ایسے نفسیاتی مسائل ہو سکتے ہیں۔
تاہم ان سے نمٹنا کیسے ہے، اس کا جواب عربی میگزین الرجل کی اس رپورٹ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ ہے کیا اور علامات کیا ہیں؟
منی میننگ اینڈ چوائسز انسٹیٹیوٹ کے بانی سٹیفن بارٹ جو اس نفسیاتی کیفیت پر کافی کام کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ جب کسی کو اچانک بہت زیادہ دولت مل جاتی ہے تو اسے شاک لگتا ہے۔ وہ غیر متوقع دباؤ کا شکار بھی ہو جاتا ہے اور اس کے رویے میں واضح تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے، وہ الجھن کا شکار ہو سکتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ وہ اس پیسے کو کیسے محفوظ بنائے۔
احساس جرم
جو شخص دولت کا عادی نہ ہو اچانک بڑی رقم مل جانے کبھی وہ خود کو اس کا حقدار سمجھتا ہے اور کبھی یہ کہ اس کے حصول میں کسی کا حق تو نہیں مارا گیا؟ یہاں سے انسان میں احساس جرم کے سے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کے دماغ پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اچانک دولت مل جانے پر انسان نفسیاتی الجھنوں کا شکار بھی ہو سکتا ہے (فوٹو: انسپلیش)

یہی احساس جرم ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے اور انسان مالی طور پر آسودہ ہو جانے کے باوجود مسلسل اداس رہ سکتا ہے۔
تاہم اگر لاٹری لگی ہے، یا بزنس کا کوئی سودا کامیاب ہوا ہے تو اس صورت میں احساس جرم تو نہیں ہوتا تاہم دیگر مسائل پھر بھی رہتے ہیں۔

دولت ملنے پر ’جھٹکا‘

اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی نوعیت پس منظر اور مالی حالات کی مناسب سے سامنے آتی ہے۔ دولت آنے کے ساتھ زندگی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے اگر اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے اور دوسروں کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے تو یہ بھی اسی سینڈروم کی ایک علامت ہے۔
اسی طرح یہ کیفیت ایک آدھ ہفتے میں ختم ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے انسان معمول کی طرف آ رہا ہے تاہم یہ صورت حال ہفتوں اور مہینوں تک جاری ہتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اسی کا شکار ہے۔

ٹکر شاک

پیسہ آنے کے بعد انسان میں ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے جس کو ’ٹکر شاک‘ سے متشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو اس شخص کے بارے میں کہی جاتی ہے جو کہیں سرمایہ کاری کر دے اور انتہائی بے چینی سے سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتا رہے اور اسے لگے کہ اگر وہ ادھر ادھر ہوا، تو سارا سرمایہ ڈوب جائے گا۔

اسراف کی طرف جانا بھی سینڈروم کی علامتوں میں سے ایک ہے (فوٹو: شٹر سٹاک)

رشتے دار، دوست

اس سینڈروم کا دائرہ صرف پیسوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر دولت مل جانے کے بعد انسان کا رویہ دوستوں اور رشتہ داروں سے بدل جاتا ہے تو وہ بھی اس کا شکار تصور کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اسی طرح انسان جس کو سب سے زیادہ اہم تصور کرتا ہے، جیسے بیوی، شوہر یا محبوب، اس کے ساتھ بھی رویہ تبدیل ہو سکتا ہے اور سب سے الگ تھلک ہو جانا بھی اسی کی علامت ہے۔

دولت کھو جانے کا خوف

اگر انسان اس دولت کو محفوظ کر بھی دے تو بھی اس کو لگتا ہے یہ ایک روز چلی جائے گی یا ختم ہو جائے گی، اس لیے جلد بازی میں کچھ ایسے فیصلہ بھی کر بیٹھتا ہے جو انہی خدشات کو حقیقت میں ڈھال دیتے ہیں۔
منصوبہ بندی کے بغیر سرمایہ کاری بھی ایسا ہی ایک قدم ہے، اس لیے اگر پیسہ کہیں لگایا بھی جائے تو سب سے پہلے مارکیٹ کو دیکھا جائے۔
اسی طرح یہی خوف چور، ڈاکوؤں کو بھی آپ کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔

دوسروں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ

اچانک دولت آ جانے کی صورت میں انسان خودغرضی کا شکار ہو سکتا ہے جس میں دوسروں کو نظرانداز کا نکتہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس سے تعلقات میں کشیدگی آتی ہے اور وہ ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس سینڈروم کی ہم علامت یہ بھی ہے کہ انسان کے نزدیک دولت سب سے اہم ہوتی ہے۔

دولت کھو جانے کا خوف بھی اسی نفسیاتی عارضے کی علامات میں سے ایک ہے (فوٹو: منی فرنٹ)

اسراف کی طرف جانا

اکثر زیادہ دولت ہاتھ میں آنے پر لوگ زیادہ خرچ کی طرف چلے جاتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اور بلاضرورت اشیا کی خریداری کرتے ہیں، جس کے بارے میں کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ان کو پیسہ مل گیا ہے اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ اس سے خریداری کریں، تاہم ماہرین اس کو بھی سینڈروم کی ایک شکل کہتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں بھی اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ یہی نکتہ ان کو واپس انہی حالات میں بھی لے جا سکتا ہے۔

خراب مالی فیصلے کرنا

زیادہ پیسہ آنے کی صورت میں انسان اس کو استعمال میں لانا چاہتا ہے جو یقیناً اس کو کرنا چاہیے، تاہم اس کے اقدامات میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس نفسیاتی کیفیت کا شکار ہے کہ نہیں۔
اگر اس وقت کمزور اور جذباتی فیصلے ہوتے ہیں اور پھر بار بار ان کو بدلا جاتا ہے تو یہ بھی سینڈروم کی علامت ہے۔ اس لیے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کاروباری فیصلے کیے جائیں۔

شیئر: