تبادلے کا تیسرا عمل، حماس اور اسرائیل مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے تیار
جمعرات 30 جنوری 2025 13:42
15 ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد حماس اور اسرائیل کی جانب سے آج جمعرات کو یرغمالیوں اور قیدیوں کا تیسرا تبادلہ کیا جائے گا۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق حماس کی جانب سے تین مزید یرغمالیوں اور پانچ تھائی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے عملی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ جس کے جواب میں اسرائیل 110 فلسطنینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
رواں ہفتے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کا مقصد غزہ میں تباہ کن جارحیت کو روکنا تھا۔
20 سالہ ایگم برجر کو غزہ میں ہونے والی ایک تقریب میں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جس کی بعدازاں اسرائیلی فوج نے تصدیق کی جبکہ مزید یرغمالیوں کی رہائی تھوڑی دیر میں ہو سکتی ہے۔
رہائی کی تقریب خان یونس میں حماس کے مقتول رہنما یحییٰ سنوار کے گھر کے سامنے ہوئی۔
ایگم برجر کی حوالگی کے منظر تل ابیب میں لگائی گئی سکرین پر نمودار ہوئے تو لوگوں نے خوش ہو کر نعرے لگائے اور کچھ لوگ گا رہے تھے کہ ’ ایگم ہم آپ کے گھر پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
برجر ان پانچ خواتین میں شامل تھیں جن کو سات اکتوبر کو کیے جانے والے حملے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔
دوسری چار خواتین کو سنیچر کو رہا کیا گیا تھا۔
آج چھوڑے جانے والے اسرائیلیوں میں 29 سالہ اربیل یہود، گادی موسیٰ اور ایک اور 80 سالہ شخص شامل ہیں۔
تھائی شہریوں کے حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا کہ ان میں کون کون شامل ہے۔حماس نے اپنے حملے کے موقع پر درجنوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی کارکنوں کو بھی یرغمال بنایا تھا۔
نومبر 2023 میں ہونے والی اور ایک ہفتے تک موثر رہنے والی جنگ بندی کے دوران جو 100 افراد رہا کیے گئے تھے ان میں 23 تھائی باشندے بھی شامل تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ آٹھ تھائی باشندے اب بھی قید میں ہیں، جن میں سے دو کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے ممکنہ طور پر رہائی پانے والوں میں وہ 30 فلسطینی بھی شامل ہیں جن کو مہلک حملوں کے الزام میں عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
ان میں سابق عسکریت پسند اور تھیٹر ڈائریکٹر ذکریا ذبیدی بھی شامل ہیں جنہوں نے 2021 میں ایک جیل پر حملے میں حصہ لیا تھا۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اربیل یہود کی شریک حیات کو سنیچر کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
پیر کو اسرائیل نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ کی طرف واپس جانے کی اجازت دی تھی، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس تباہ حال علاقے میں پہنچے تھے اور بہت سے لوگوں کو ان کے گھر ملبے کے ڈھیر کی طرح ملے تھے۔
اگرچہ جنگ بندی ابھی جاری ہے تاہم اس کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔
پہلے مرحلے میں حماس نے 33 اسرائیلی یرغمالی رہا کرنے ہیں، جن میں بچے، خواتین، عمررسیدہ، زخمی اور بیمار افراد شامل ہیں اور اس کے جواب میں تقریباً 2000 فلسطینی قیدی چھوڑے جائیں گے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ اس مرحلے میں رہا کیے جانے والے یرغمالیوں میں سے آٹھ ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب فلسطینیوں نے قیدیوں کی رہائی پر خوشی اظہار کیا ہے، جن کو وہ ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اسی طرح معاہدے کے بعد کچھ علاقوں سے اسرائیلی فوج
کل بھی گئی ہے۔
ڈیل میں حماس اور اسرائیل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دوسرے مرحلے میں یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کریں اور جنگ بندی آگے بڑھ سکتی ہے، تاہم اگر کسی نتیجے تک نہ پہنچا گیا تو مارچ کے آغاز میں جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی حماس کی تباہی کے عزم پر قائم ہے جس نے جنگ بندی کے بعد غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
وزیراعظم نیتن یاہو اہم اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اتحادی پہلے ہی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر جنگ شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے مکمل خاتمے اور علاقے سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلا تک باقی رہ جانے والے یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گی۔