’جب میں اور میرے ساتھی لیبیا ایئرپورٹ پر پہنچے تو ہمیں گاڑیوں میں ڈال کر دور ریگستان میں ایک کیمپ میں لے جایا گیا جو ایک بڑے شیڈ کی طرح کا تھا جس میں 400 سے زائد افراد موجود تھے۔
24 گھنٹوں میں دو مرتبہ محدود سا کھانا، تھوڑا سا پانی اور رہنے کے لیے غلیظ رہائش دی گئی تھی۔ چند ہی دنوں میں سر اور جسم پر جوئیں رینگتی ہوئیں نظر آنے لگیں۔ ہفتوں بعد نہانے کے لیے ایک بالٹی پانی میسر آتا۔ جسم پر عجیب سی خارش اور چھالے نکل آئے جس سے اعضا سوجھ گئے۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستان سے نوجوانوں کا بیرون ملک جانا کیوں مشکل ہوتا جا رہا ہے؟Node ID: 884875
یہ کہنا ہے منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے راشد علی کا جو دو سال پہلے ایک ایجنٹ کے ذریعے یورپ جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تھے لیکن ڈنکی اتنی طویل ہو گئی کہ وہ دو سال سے لیبیا میں محصور ہیں۔
صرف راشد علی ہی نہیں بلکہ گجرات اور گرد و نواح کے کئی اضلاع کے نوجوان لاکھوں روپے ایجنٹ کو دے کر سہانے سپنے آنکھوں میں سجائے ڈنکی لگانے کے لیے گھروں سے نکلے تھے۔
ان کا یہ خیال تھا کہ وہ ایک ڈیڑھ مہینے کے اندر یورپ پہنچ جائیں گے لیکن وہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال جبکہ کئی افراد اس سے بھی زیادہ عرصے سے لیبیا، مالٹا، موریطانیہ اور دیگر ممالک میں محصور ہیں۔
ایجنٹ نہ تو انہیں یورپ بھیج رہے ہیں اور نہ ہی پاکستان واپس بھیج رہے ہیں کہ پیسے لوٹانا پڑیں گے۔
یہ نوجوان ان ملکوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اکثر و بیشتر تو اپنے ذاتی اخراجات کے لیے گھر والوں سے رقم منگوانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بعض تو ایسے ہیں جو مقامی مافیا کے ہتّھے چڑھ جاتے ہیں اور پھر گھر والوں کو کئی ہزار ڈالر تاوان ادا کر کے ان کی جان بچانا پڑتی ہے۔
ضلع گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور دیگر اضلاع میں ایسی کہانیاں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔
منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے اصغر علی نے اپنے بیٹے کو یورپ بھیجنے کے لیے ایجنٹ کو پیسے دیے جسے ایجنٹ نے لیبیا پہنچا کر پوری رقم وصول کر لی۔
ان کے بیٹے راشد علی جب لیبیا پہنچے تو ایجنٹ نے انہیں دور ریگستان میں بنے ایک شیڈ میں پہنچا دیا جنہیں ڈنکی پوائنٹس کہا جاتا ہے۔
راشد علی کے مطابق اس شیڈ میں پہلے سے 400 افراد موجود تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ قریب ہی دیگر شیڈز میں 300 سے ایک ہزار تک لوگ منتظر ہیں کہ انہیں کب جہاز میں سوار کروا کر یورپ روانہ کیا جائے گا جن میں اکثریت پاکستانی شہریوں کی ہے۔
انہوں نے خود پر بیتی پبپتا کچھ یوں سنائی: ’ہمیں دن میں صرف دو مرتبہ محدود کھانا فراہم کیا جاتا۔ یعنی صبح کے وقت کا ناشتہ دوپہر کو اور پھر رات گئے کھانا ملتا۔ ایک برتن میں آٹھ لوگوں کو کھانا کھانے کے لیے کہا جاتا اور مجبوری میں کھانا بھی پڑتا۔ نہانے کے لیے پانی تو درکنار پینے کے لیے بھی تھوڑا بہت پانی ہی دستیاب ہوتا۔‘
راشد علی نے بتایا کہ ’ہماری حالت دیکھ کر ایجنٹ نے ہمیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا تھا اور علاج کے نام پر گھر والوں سے مزید پیسے بھی منگوا رہا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ تقریباً ڈیڑھ سال اس کیمپ میں گزارنے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور کسی اور ایجنٹ کو اپنی روداد سنائی جس نے انھیں اپنے پاس پناہ دی اور اب ان کا علاج جاری ہے۔
راشد علی تو ڈیڑھ سال کرب میں مبتلا رہنے کے بعد وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کیمپوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود افراد کئی مہینوں اور برسوں سے منتظر ہیں کہ کب وہ وہاں سے آگے نکل سکیں گے۔ انہی میں گجرات سے تعلق رکھنے والے فیصل اقبال کے بھائی ثاقب بھی شامل ہیں۔
فیصل اقبال نے بتایا کہ ’پہلے والد صاحب فوت ہوئے، کچھ عرصے بعد بیرون ملک مقیم 30 سالہ بڑا بھائی انتقال کر گیا۔ ہم دو بھائی گھر میں رہ گئے۔ ہماری آٹھ کنال زمین تھی۔ پتہ نہیں کیوں اس پر بھی باہر جانے کی دُھن سوار ہو گئی تو اس نے ان آٹھ میں سے چھ کنال زمین بیچ کر ایجنٹ کو 28 لاکھ روپے دیے اور دو دن میں لیبیا پہنچ گیا۔ اب دو سال ہو گئے ہیں وہ لیبیا میں ہی مقیم ہے نہ آگے جا سکتا ہے اور بلانے پر بھی واپس نہیں آ رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فون کی گھنٹی بجتی ہے تو ایک لمحے میں دل میں ہزاروں وسوسے دوڑ جاتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ شاید اس کے یورپ پہنچ جانے کی اطلاع آ گئی ہے اور کبھی تو سوچ کر ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ جب تک بات نہ ہو جائے دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے۔‘
لاکھوں روپے خرچ کر کے لیبیا پہنچنے کے بعد اگرچہ ان نوجوانوں کو بہت سی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر اپنے گھر والوں کو ان تکالیف سے آگاہ نہیں کرتے۔ تاہم جہلم سے تعلق رکھنے والے محمد اسامہ تین ماہ تک یہ تکالیف برداشت کرنے کے بعد ہمت ہار گئے اور انہوں نے اپنے گھر والوں کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
محمد اسامہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایجنٹ کو 26 لاکھ روپے دے رکھے تھے مگر میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے ایک روپیہ بھی واپس نہ کرے بس میرا علاج کروا دے اور واپس بھیج دے۔ ایجنٹ نے وہاں تھوڑا بہت علاج کروایا جس کے بعد گھر والوں نے چار لاکھ روپے مزید بھیجے اور میں ٹکٹ کروا کے واپس پہنچ گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’واپس آئے ہوئے اگرچہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے جس میں سے آٹھ مہینے میرا علاج ہوتا رہا ہے تب جا کر میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوا ہوں۔‘
عدیل بشیر کے والد بشیر احمد پیشے کے لحاظ سے ٹریکٹر ڈرائیور ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی وجہ سے انھیں اپنا گھر بیچنا پڑا اور گاؤں سے باہر مکان بنا رہے تھے کہ ایک مقامی ایجنٹ کو معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس کچھ پیسے ہیں۔
’وہ موقع کی تلاش میں رہا اور بچے کو سبز باغ دکھا کر بیرونِ ملک بھجوانے کا وعدہ کیا۔ 25 لاکھ روپے میں ڈیل ہوئی اور وہ اس ایجنٹ کے ساتھ روانہ ہوگیا۔‘
عدیل بشیر ایک سال لیبیا میں گزارنے کے بعد جب وہ اگلے سفر پر روانہ ہوئے تو انہیں مالٹا کے سمندر میں گرفتار کر لیا گیا جہاں وہ ایک سال سے جیل میں قید ہے۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عدیل بشیر کے والد نے بتایا کہ ’میرا بیٹا لوڈر رکشا چلاتا تھا جس سے اچھی خاصی دیہاڑی لگ جاتی تھی۔ اب ایک سال سے جیل میں قید ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کب رہا ہوگا؟ سوچا تھا بیرونِ ملک جا رہا ہے تو زندگی آسان ہو جائے گی یہاں تو الٹے جان کے لالے پڑ گئے ہیں اور اس کی واپسی بھی اب معجزہ ہی ہوگی جو ایک طویل قانونی عمل کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔‘