کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر نیلی جینز اور سفید اَپر پہنے ایک نوجوان اپنی آنکھوں میں خواب لیے بین الاقوامی روانگی کے لاؤنج کی جانب بڑھ رہا تھا۔
وہ نوجوان روانگی سے قبل اہلِ خانہ سے مل کر رخصت ہوا تو اُس کی آنکھوں میں خوشی اور جذبات کی چمک واضح تھی۔
نوجوان کے ہاتھ میں دو بیگ تھے۔ اُس نے سکیورٹی چیک کروا کر سامان مشین پر رکھا، اپنی تلاشی دی اور بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد امیگریشن کی قطار میں جا کھڑا ہوا۔ وہ کراچی سے کرغزستان جا رہا تھا۔
مزید پڑھیں
-
سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے ’44 پاکستانی ہلاک‘Node ID: 884531
جب اس نوجوان کی باری آئی تو وہ اعتماد کے ساتھ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا۔ اس نے پاسپورٹ اور دستاویزات ایف آئی اے اہلکار کو دکھائیں۔
اہلکار نے ایک نظر کاغذات پر ڈالی اور سوالات پوچھنے لگا۔ نوجوان نے ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کی مگر کہیں کچھ کمی تھی۔ اہلکار نے نوجوان کو اپنے سینیئر افسر کے حوالے کر دیا۔
سینیئر افسر نے کاغذات اور نوجوان کی باتوں کا جائزہ لیا لیکن وہ مطمئن نہ ہو سکے چنانچہ نوجوان کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ وہ حیران و پریشان کھڑا تھا۔ آنکھوں میں چمکتے خواب اب مایوسی میں بدل چکے تھے۔
ایئرپورٹ کے باہر اپنے اہلِ خانہ سے ملتے ہوئے اس کے چہرے پر بے بسی عیاں تھی۔ وہ صرف اتنا کہہ پایا کہ ’انہوں نے مجھے سفر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ شاید میرے خواب ادھورے ہی رہ جائیں۔‘
انسانی سمگلنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے عالمی سطح پر معاشرتی اور قانونی چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ پاکستان میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی سال بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک جامع ایڈوائزری جاری کی ہے۔
اس ایڈوائزری میں خصوصی طور پر 15 برس کے نوجوانوں سے 40 سال کے افراد کی نقل و حرکت کو سختی سے مانیٹر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انسانی سمگلنگ کی روک تھام یا نوجوانوں کی آزادی پر پابندی؟
انسانی سمگلنگ نہ صرف ایک سنگین جُرم ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ سمگلرز بے گناہ شہریوں کو بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر انہیں غیر قانونی راستوں سے دوسرے ممالک منتقل کرتے ہیں جہاں اکثر اُن کا استحصال ہوتا ہے۔
ایف آئی اے کی جاری کردہ ایڈوائزری میں 15 ممالک کی ایسے مقامات کے طور پر شناخت کی گئی ہے جہاں پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا جاتا رہا ہے۔

نوجوانوں کی سخت نگرانی کیوں؟
ایڈوائزری میں نوجوانوں پر خاص نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کیوں کہ اسی عمر میں لوگ بہتر روزگار اور مواقع کی تلاش میں غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اس عمر کے افراد انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے لیے آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔ 15 سے 40 سال کے مسافروں کی نگرانی کرنے کے فیصلے کی وجہ وہ اعداد و شمار ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی سمگلنگ میں زیادہ تر اسی عمر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔
نگرانی کے لیے اقدامات
ایف آئی اے کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق مسافروں کی پروفائلنگ کی جائے گی۔ اُن کے سفری مقاصد، مالی حیثیت اور دستاویزات کی باریک بینی سے جانچ کی جائے گی۔ وزٹ، سیاحتی، مذہبی اور تعلیمی ویزوں پر بیرونِ ملک جانے والے افراد خاص طور پر زیرِ نگرانی رہیں گے۔
علاوہ ازیں گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، اور بھمبر جیسے شہروں کے مسافروں کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی ہے کیوں کہ ماضی میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سمگلنگ کے نیٹ ورکس کا حصہ بنے ہیں۔
ایڈوائزری میں درج ہدایات کا مقصد انسانی سمگلنگ کی روک تھام ہے، لیکن اس اقدام کے اثرات نوجوانوں کی آزادی اور سفر کے حق پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ کئی نوجوان اپنے تعلیمی یا پیشہ ورانہ مقاصد کے حصول کے لیے بیرونِ ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اضافی چیکنگ اور سخت نگرانی اُن کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے۔

نوجوانوں کا ایک اہم حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو قانونی طور پر ویزا حاصل کر کے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ شک کی بنیاد پر ان کی نگرانی نہ صرف ان کی آزادی متاثر کر سکتی ہے بلکہ ان کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
26 سال کے طالب علم عمران احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے محنت کرتے ہیں، لیکن سخت چیکنگ کے باعث ہمیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مایوس کن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام کو بہتر بنائے، صرف اس لیے کسی کو آف لوڈ کرنا کہ وہ نوجوان ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
انہوں نے انتظامیہ کے اس اقدام کو اداروں اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھانے کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسے اقدامات نوجوانوں اور حکومتی اداروں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو بڑھا سکتے ہیں۔‘
عمران احمد مزید کہتے ہیں کہ بہت سے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے غیر ضروری دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک اور نوجوان ابراہیم جونیجو جو اپنے کاروبار کے سلسلے میں بیرونِ ملک سفر کرتے رہتے ہیں، نے کہا کہ ’میرے جیسے افراد جو قانونی طریقے سے سفر کرتے ہیں، کی اس طرح سے نگرانی کرنا غیر منصفانہ ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں جو عام شہریوں کے نہیں بلکہ سمگلنگ کے خلاف ہوں۔‘
ایف آئی اے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ’ملک کے تمام ایئرپورٹس پر بیرونِ ملک جانے والے مسافروں کی سخت سکریننگ کی جا رہی ہے جس کا مقصد انسانی سمگلنگ کو روکنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ہر مسافر کو ہی آف لوڈ کیا جا رہا ہے صرف ان مسافروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جن کی سفری دستاویزات یا تو نامکمل ہیں یا پھر درست نہیں ہیں۔‘
انہوں نے حالیہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ چند دنوں میں کئی مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے بعض شناخت بدل کر سفر کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور بعض کی دستاویزات نامکمل تھیں۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک کارروائی کے دوران تقی الحسن سجاد نامی شخص کو گرفتار کیا گیا جو اشرف عباس کی سفری دستاویزات استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ ملزم نے جعلی شناخت اختیار کی تھی۔
اس کے علاوہ لیبیا سے واپس آنے والے دو مسافروں کو بھی حراست میں لیا گیا جنہوں نے یورپ پہنچنے کے لیے ایجنٹس کو بھاری رقم ادا کی تھی۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق مسافروں کو ایجنٹس نے فیصل آباد سے لیبیا براستہ مصر منتقل کیا تھا جہاں سے انہیں کشتی کے ذریعے اٹلی بھیجنے کی کوشش کی گئی تاہم لیبیا کے حکام نے انہیں گرفتار کر کے پاکستان واپس بھیج دیا۔
ایف آئی اے کے مطابق ملزموں کو مزید قانونی کارروائی کے لیے انسدادِ انسانی سمگلنگ سرکل کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ناقدین کے خیال میں ایف آئی اے کی جاری کردہ ایڈوائزری انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن اس کے مثبت اثرات صرف اسی صورت میں مرتب ہوں گے جب اس کے نفاذ میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔