Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن بینکنگ اکاؤنٹس بلاک ہونے کی شکایات، ’لگتا ہے پیسے اب واپس نہیں ملیں گے‘

سٹیٹ بینک کے جائزے کے مطابق ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی مالیت 403 ٹریلین سے بڑھ کر 547 ٹریلین روپے ہو گئی ہے (فائل فوٹو: فری یکسز)
پاکستان میں آن لائن اور ڈیجیٹل مالی لین دین کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم گزشتہ کئی ماہ سے آن لائن یا انٹرنیٹ بینکاری کے نظام کو شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔
متعدد صارفین ای والٹس کا استعمال تو کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ٹرانزیکشن مکمل نہ ہونے اور اکاؤنٹس بغیر کسی وارننگ کے بند ہونے کی صورت میں شکایات بھی کر رہے ہیں۔
آن لائن بینکنگ سے مستفید ہونے والے صارفین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شکایات کر رہے ہیں کہ بتائے بغیر ان کے اکاؤنٹس بند کر دیے گئے ہیں یا ان کی بھیجی گئی رقوم دوسری جانب موصول نہیں ہو رہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ذرائع کی بڑھتی ہوئی دستیابی سے ڈیجیٹل ادائیگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2024 میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کا حصہ مالی سال 2023 کے مقابلے میں آٹھ فیصد سے بڑھ کر 84 فیصد ہو گیا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ بینکنگ کے بڑھتے ہوئے اس رجحان کے برعکس صارفین مسلسل آن لائن بینکاری کے بارے میں مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں جاز کیش، ایزی پیسہ ان مقبول پلیٹ فارمز میں شامل ہیں، جن کے ذریعے پاکستانی شہری ملک کے اندر رہتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعے مالی لین دین کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ’سادہ پے‘ اور ’نیا پے‘ ایسے پلیٹ فارمز ہیں جن کو بین الاقوامی مالیاتی لین دین سمیت سپاٹیفائی، آن لائن کاروبار، فری لانسنگ اور دیگر معاملات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اردو نیوز نے ملک بھر کے ایسے صارفین کو تلاش کیا جو آن لائن یا انٹرنیٹ بینکاری کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ان صارفین کے مسائل کو ان کمپنیوں کے سامنے رکھا گیا جن کے بارے میں شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
اس وقت صارفین کی جانب سے پاکستان میں زیادہ تر شکایات ’ایزی پیسہ‘ سے متعلق موصول ہو رہی ہیں جبکہ بین الاقوامی مالی لین دین اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال ہونے والی ’سادہ پے‘ سے متعلق بھی صارفین پریشان ہیں۔

سٹیٹ بینک کے جائزے کے مطابق ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی مالیت 403 ٹریلین سے بڑھ کر 547 ٹریلین روپے ہو گئی ہے (فائل فوٹو: سادہ پے)

’لگتا ہے پیسے واپس نہیں ملیں گے‘
پاکستان میں صارفین فری لانسنگ اور پریمیئم سبسکرپشن کے لیے ’نیا پے‘ اور ’سادہ پے‘ جیسے ای والٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے جائزے کے مطابق ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی مالیت 403 ٹریلین سے بڑھ کر 547 ٹریلین روپے ہو گئی ہے جبکہ مالی سال 2024 کے دوران ای والٹس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 85 فیصد سالانہ نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ موبائل بینکاری کے ایپس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 16 فیصد اور انٹرنیٹ بینکاری کرنے والے صارفین کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تاہم اب صارفین کی شکایات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لِنکڈ اِن سمیت فیس بک، ایکس اور دیگر پلیٹ فارمز پر صارفین ای والٹ ایپس سے متعلق اپنے مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک شاہد خان (فرضی نام) ہیں جو ایک موبائل ایپ ڈویلپر ہیں۔ وہ اور ان کی پوری کمیونٹی آن لائن بینکنگ سے متاثر ہوئی ہے لیکن وہ خود اپنا نام سامنے نہیں لانا چاہتے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہماری 30 ہزار کے قریب کمیونٹی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ’سادہ پے‘ جیسے ای والٹ ایپس استعمال کر رہی ہے لیکن گزشتہ کئی ماہ سے وہ پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس مسلسل بغیر کسی پیشگی وارننگ کے بلاک ہو رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس میں ان کی رقوم بھی منجمد ہو گئی ہیں جو کم از کم ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ 3 ماہ تک وہ استعمال نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ روزمرہ کی بنیاد پر بین الاقوامی کلائنٹس سے رابطے میں رہتے ہیں، لیکن جب ان کے ساتھ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ رقوم کی وصولی کے وقت پیش آتا ہے۔
ان کے بقول ’ہم کلائنٹس کے ساتھ سب کچھ طے کر لیتے ہیں، لیکن پاکستان میں کوئی موزوں انتظام نہیں کہ وہ ہمیں باہر سے پیسے بھیج سکیں، اس لیے ہم پھر ’سادہ پے‘ یا ’نیا پے‘ کا استعمال کرتے ہیں لیکن اب وہ بھی ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں۔‘
شاہد بھٹی بھی ایک فری لانسر ہیں اور وہ مالیاتی لین دین کے لیے ’سادہ پے‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے ایک ماہ سے ان کا اکاؤنٹ بغیر کسی وارننگ کے بند پڑا ہوا ہے۔

ایزی پیسہ سے متعلق بھی بہت سے صارفین سوشل میڈیا پر شکایات کا اظہار کر رہے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

شاہد بھٹی کا کہنا ہے کہ ’میرے اکاؤنٹ میں 83 ہزار روپے تھے۔ اچانک میرا اکاؤنٹ بلاک ہو گیا اور اب ایک مہینہ گزر گیا لیکن اب تک مسئلہ حل نہیں ہوا۔ جب ہم سادہ پے کو کوئی میسج، ای میل یا فون کرتے ہیں تو گھنٹے گزر جاتے ہیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہوتی‘
ان کے مطابق مسلسل کوششوں کے بعد انہیں ایک فارم میں کوائف درج کرنے کا کہا گیا لیکن تاحال کوئی حل نہیں نکل سکا۔
میں نے اب تک تین فارم میں اپنے کوائف لکھ کر بھیجے ہیں۔ ہر بار کہا جاتا ہے کہ پیسے واپس مل جائیں گے لیکن اب تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ اب لگتا تو یہی ہے کہ پیسے واپس نہیں ملیں گے۔‘
اسی طرح کفایت علی کو بھی اکاؤنٹ بند ہونے کا مسئلہ درپیش آیا۔ وہ آن لائن خدمات اور کئی پلیٹ فارمز کی پریمیئم سبسکرپشن کے لیے ’سادہ پے‘ استعمال کر رہے ہیں لیکن اب ان کا اکاؤنٹ بند ہو چکا ہے۔
ان کے بقول ’پہلی بار جب میں نے موبائل پر ’سادہ پے‘ سائن اَپ کرنا چاہا تو وہ نہیں ہوا۔ ہمارے کئی دوستوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ کئی بار تو کوئی ٹرانزیکشن بھی نہیں ہوتی۔‘
عمر ابراہیم فری لانسنگ کرتے ہیں۔ وہ ویڈیو ایڈیٹنگ کی خدمات فراہم کرتے ہیں لیکن اب ان کا اکاؤنٹ بلاک ہو چکا ہے۔
وہ بتاتے ہیں ’ایک دن صبح اٹھا تو میرا نمبر ’سادہ پے‘ پر بلاک ہو گیا تھا۔ میں نیٹ فلکس اور سپاٹیفائی کی سبسکرپشن کے ساتھ ساتھ ٹرانزیکشن کے لیے بھی ’سادہ پے‘ استعمال کرتا ہوں لیکن میں نے کافی وقت سے ’سادہ پے‘ استعمال نہیں کیا تھا پھر بھی اچانک میرا نمبر بلاک ہو گیا۔‘
ان کے مطابق ان کے کئی دوستوں کا بھی وقتی طور پر نمبر بلاک ہوا جو چار ہفتوں کے بعد فعال ہوا۔
اردو نیوز کے ساتھ ایسے کئی صارفین نے رابطہ کیا جن کے اکاؤنٹس ان کے بقول ’سادہ پے‘ نے بغیر کسی وارننگ کے بلاک کر دیے تھے تھے۔ لنکڈاِن پر کئی صارفین ’سادہ پے‘ کے عہدیداران اور نمائندوں سے براہ راست پوچھ رہے ہیں اور ’سادہ پے‘ کے عہدیداران ان کو جواب بھی دے رہے ہیں لیکن تاحال ان کے مسائل حل نہ ہو سکے۔ ’سادہ پے‘ کے علاوہ کئی صارفین نے ’نیا پے‘ میں بھی ٹرانزیکشن اور لاگ ان نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔
’سادہ پے‘ کا صارفین کی شکایت پر ردعمل
اردو نیوز نے ان صارفین کا ڈیٹا اور شکایات ’سادہ پے‘ کے سامنے رکھے اور کمپنی سے ان کی وجوہات سمیت حل سے متعلق سوالات کیے۔
سادہ پے نے اردو نیوز کے سوالات پر تفصیلی جواب دیتے ہوئے بتایا کہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنانے، دھوکہ دہی سے بچنے سمیت صارفین اور کمپنی کو محفوظ رکھنے کے لیے اکاؤنٹس بلاک کیے جاتے ہیں۔
سادہ پے کے مطابق ’کوئی بھی مالیاتی کمپنی اپنے صارفین کے اکاؤنٹس مخصوص وجوہات کی بناء پر بلاک کرتی ہے۔ ان وجوہات میں شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات کا زائد المیعاد ہونا، اکاؤنٹس سے مشکوک سرگرمی کا خدشہ ظاہر ہونا اور دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔ سادہ پے نے حال ہی میں اپنی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار اپنایا ہے جس کی وجہ سے کچھ صارفین کے اکاؤنٹس کو عارضی طور پر بلاک کیا جا رہا ہے۔‘
سادہ پے کے مطابق صارفین اپنے اکاؤنٹس بلاک ہونے سے بچانے کے لیے زائد المیعاد شناختی کارڈ استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ’اگر کسی صارف کی دستاویزات کی میعاد ختم ہو جاتی ہے، تو انہیں اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کی اطلاع دی جاتی ہے۔ نوٹیفکیشن کے 30 دنوں کے اندر تفصیلات اپڈیٹ نہ کرنے کی وجہ سے اکاؤنٹس عارضی طور پر بلاک ہو جاتے ہیں۔‘

کئی صارفین کو بغیر وارننگ کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کا مسئلہ درپیش ہے (فائل فوٹو: نیا پے)

اسی طرح سادہ پے کے مطابق صارفین کے اکاؤنٹس پر دھوکہ دہی پر مبنی مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کے بعد اکاؤنٹس بلاک کیے جاتے ہیں۔ سادہ پے کے مطابق کئی صارفین پریمیم سبسکرپشن لینے کے باوجود فیس کی ادائیگی نہیں کرتے اور انہیں مسلسل ٹرانزیکشن کی معطلی کا سامنا رہتا ہے۔
’جب صارفین کی ٹرانزیکشن مسلسل معطل ہو رہی ہو تو اس کا بوجھ ادارے یعنی سادہ پے پر پڑتا ہے۔ کئی بار وارننگ دینے کے بعد بھی اگر سبسکرپشن کی فیس ادا نہیں کی جاتی تو ایسے صارفین کے اکاؤنٹس بلاک ہو جاتے ہیں۔‘
کئی صارفین کو بغیر وارننگ کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کا مسئلہ درپیش ہے تاہم سادہ پے نے اس کی تردید کی ہے۔ سادہ پے کے مطابق صارفین کو براہ راست ایپ کے ذریعے الرٹس موصول ہوتے ہیں۔ ’ان الرٹس کا مقصد صارفین کو مسئلے کے بڑھنے سے پہلے اس کی شناخت اور حل کرنے میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صارفین کو ای میل کے ذریعے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔‘
سادہ پے کے بیان کے مطابق اگر اکاؤنٹ کو بالآخر معطل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس صورت میں صارفین کو معطلی کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے اور ایک اضافی ای میل کے ساتھ ایک فارم بھیجا جاتا ہے جہاں وہ اپنے فنڈز نکالنے کے لیے متبادل بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں۔
سادہ پے کے بقول ’صارفین کے رقوم کسی صورت ضبط نہیں کی جا سکتی اس لیے متبادل بینک کے ذریعے صارفین کو رقوم واپس کر دی جاتی ہیں۔‘
ایزی پیسہ میں صارفین کو مسائل
متعدد صارفین نے ایزی پیسہ اور جاز کیش میں مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
احسان اللہ جو لاہور میں ایک ہوٹل پر کام کرتے ہیں، کے بقول ان مسائل کی وجہ سے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’میں خود ہوٹل پر کام کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے کئی دوستوں کے ساتھ کمیٹیاں ڈال رکھی ہیں۔ میں ایزی پیسہ کے ذریعے ہر ماہ کمیٹی کی قسط ادا کرتا ہوں لیکن گزشتہ دو ماہ سے میری قسط دوسری جانب موصول نہیں ہو رہی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایزی پیسہ کے ذریعے بینک اکاونٹ میں رقم منتقل کی تاہم دوسری جانب وہ رقم تین ہفتوں کے بعد ملی۔ ’کمیٹی میں تو بروقت قسط کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ ایزی پیسہ نے میرے پیسے تین ہفتوں تک اپنے پاس رکھے اور پھر مسلسل رابطے کرنے کے بعد میرا مسئلہ حل ہوا۔‘
شبیر احمد کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ان کے مطابق وہ جب ایزی پیسہ کے ذریعے گھر والوں کو پیسے بھیجتے ہیں تو وہ رقم ان کے گھر والوں کو موصول نہیں ہوتی۔
ان کے بقول ’بعض اوقات پیسے اکاؤنٹس سے کٹ جاتے ہیں لیکن وہ گھر والوں کو موصول نہیں ہوتے۔‘
کفایت علی بتاتے ہیں کہ ان کا اکاونٹ لاگ اِن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ دن بھر پریشان رہتے ہیں۔

بہت سے صارفین کی شکایت ہے کہ ٹرانزکیشن کے بعد پیسے کٹ جاتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ اکاؤنٹ کو موصول نہیں ہوتے (فائل فوٹو: پکسابے)

لاہور کے احمد علی ایک دکان دار ہیں اور وہ ایزی پیسہ کے ذریعے لوگوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’ہمارے لیے تو عین موقعے پر ہی پیسے مل جانا تصدیق کے مترادف ہوتا ہے لیکن اب بار بار ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ دکان پر آ کر پیسے بھیج دیتے ہیں، ان کے اکاؤنٹس سے پیسے سینڈ تو ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں ملتے نہیں جس کے باعث کئی بار تو لڑائیاں بھی ہوجاتی ہیں لیکن ہم کیا کریں؟ جب ہمیں پیسے ہی نہیں مل رہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟‘
ایزی پیسہ کے ترجمان نے اردو نیوز کے فراہم کردہ ڈیٹا پر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے 24 گھنٹوں کے اندر ہی ایسے مسائل حل کر دیے جاتے ہیں۔
 ایزی پیسہ کے ترجمان کے بقول ’ہماری طرف سے 24 گھنٹوں کا وقت ہوتا ہے لیکن بعض کیسز میں اضافی تاخیر جانچ پڑتال کی وجہ سے پیش آتی ہے، زیادہ تر مسائل بینکس کی جانب سے پیش آتے ہیں۔‘
اکثر ادائیگی میں پرٹنر بینکس کی جانب سے تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ہم ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے اور کم کرنے کے لیے ان بینکوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔‘
’بعض اوقات رقوم منتقلی کی حد سے تجاوز، غیرمعمولی سرگرمی یا لین دین کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی ہے جس کے لیے سکیورٹی اور ریگولیٹری قواعد کو یقینی بنانے کے لیے اضافی تصدیقی اقدامات کیے جاتے ہیں۔‘

 

شیئر: