سابق وزیراعلیٰ صوبہ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے سیاست میں واپسی کر لی ہے اور کہا ہے کہ وہ 22 فروری کو اپنے آبائی گاؤں میں جلسہ کریں گے۔
خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے مانکی شریف میں جلسہ کرنے کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے جس میں ان کے بھائی لیاقت خٹک سمیت خاندان کے دیگر افراد بھی شریک ہوں گے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق پرویز خٹک اور ان کے بھائی کے درمیان تعلقات خراب تھے مگر دونوں میں صلح کے بعد اب یہ بہتر ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا تحریک انصاف اور پرویز خٹک کی پارٹی میں اتحاد ہو رہا ہے؟Node ID: 836801
دونوں بھائیوں نے دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اب 22 فروری کو جلسہ کررہے ہیں۔
کیا پرویز خٹک نئی سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں؟
پرویز خٹک کے قریبی ساتھیوں کے مطابق پرویز خٹک کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شمولیت کی پیشکش کی گئی ہے، تاہم انہوں نے کسی کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
پرویزخٹک کے سیکریٹری جان مست خٹک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’خٹک صاحب کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو رہے نہ ہی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’22 فروری کو ہونے والے جلسے میں دوست اور احباب کے علاوہ کسی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔‘
جان مست کے مطابق پرویز خٹک اور ان کے بھائی مل کر جلسہ کر رہے ہیں جس کا مقصد خاندان اور علاقے کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر دوبارہ جمع کرنا ہے۔
’غیر سیاسی اجتماع ہوگا‘
پرویزخٹک اور ان کے بھائی نے جلسہ کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے، تاہم اسے غیر سیاسی سرگرمی قرار دیا جا رہا ہے۔
نوشہرہ کے مقامی صحافی فضل نبی کا کہنا ہے کہ ’پرویزخٹک کے جلسے کو فیملی گیدرنگ کا نام دیا گیا ہے۔‘
فضل نبی کے مطابق پرویز خٹک کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’22 فروری کو کسی کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی ہے نہ کسی نئی جماعت کے قیام کا اعلان ہوگا۔‘
پرویز خٹک نے مؤقف اپنایا کہ ’مانکی شریف میں حلقے کے تمام مشران اور قوم کو دعوت دی گئی ہے تاکہ اتفاق و اتحاد کا پیغام جاسکے۔‘
’پرویزخٹک کے گلے شکوے دور کیے جارہے ہیں‘
سینیئر تجزیہ کار ارشد عزیز ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ ’نئی جماعت بنانے کا فائدہ نہیں ہے کیوں کہ الیکشن ابھی قریب نہیں ہیں اور نہ ہی اس وقت صوبے میں ایسا سیاسی ماحول ہے کہ نئی سیاسی جماعت قائم کی جا سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طریقے سے پرویز خٹک کو وفاق کی جانب سے سپورٹ مہیا ہو جائے، خٹک صاحب کو عہدہ دینے کے بارے میں بھی بات چیت ہو رہی ہے تاکہ صوبے میں پی ٹی آئی کو دبایا جاسکے۔‘
سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کو دبانے کے لیے پرویز خٹک ضروری ہیں۔ اُن سے اسی حوالے سے بات چیت ہورہی ہے اور کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ پرویز خٹک کی ناراضی دورکی جاسکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’8 فروری کے انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک کے اسٹیبلشمنٹ سے گلے شکوے پیدا ہوگئے تھے جو اب انہیں سیاسی سپیس دے کر دور کیے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پرویز خٹک نے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ انہیں کس جماعت کے ساتھ چلنا ہے یا پھر وہ آزاد حیثیت سے سیاست کریں گے، آنے والے کچھ دنوں میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔‘
واضح رہے کہ پرویز خٹک نے تحریک انصاف چھوڑ کر پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے نام سے نئی جماعت بنائی تھی، تاہم 8 فروری کے الیکشن میں شکست کے بعد اپنی جماعت سے مستعفی ہوکر سیاست سے کنارہ کشی کرنے کا اعلان کیا تھا۔