سوچیں کیسا دلچسپ اور منفرد منظر ہوگا، دو لیجنڈ فنکاروں کی آپس میں ملاقات۔ ایک انڈیا کا سب سے بڑا مصور جبکہ دوسرا فلم کی دنیا کا عظیم ہدایت کار، کہانی کار۔
یہ ملاقات کلکتہ میں ہوئی۔ دونوں چُپ چاپ ایک دوسرے کو بہت دیر تک دیکھتے رہے۔ پھر میزبان نے پہل کی، ایک سفید کاغذ اٹھایا، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ اپنے سامنے رکھا اور دوسرا مہمان مصور کو دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے سکیچ بنائے، نیچے اپنے دستخط کیے۔ ایک دوسرے کو پیش کیے اور پھر خاموشی سے خدا حافظ کہہ کر رخصت ہو گئے۔
یہ ملاقات بھی عجیب اور دلچسپ تھی اور یہ دونوں مہان فنکار بھی ویسے ہی کردار تھے۔ عجیب، دلچسپ اور منفرد۔ میزبان شہرہ آفاق بنگالی ہدایت کار، مصنف ستیہ جیت رے جبکہ مہمان انڈیا کے نامور مصور ایم ایف حسین تھے۔
مزید پڑھیں
-
آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883698
-
جنوبی پنجاب کے کسان کیوں پریشان ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 884396
-
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 884658
ایم ایف حسین کا اصل نام مقبول فدا حسین تھا۔ پنڈھرپور، مہاراشٹر کے ایک کمزور مالی حالات والے گھرانے سے تعلق تھا۔ خطاطی سیکھنے کی کوشش میں مصوری میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور پھر گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود مصوری کی طرف آئے۔ ممبئی میں بہت برے حالات میں گزارا کیا، فلموں کے لیے بڑے دیو ہیکل پوسٹر بناتے رہے، مختلف چھوٹی موٹی نوکریاں کیں جن کے بعد ایک ڈھابے سے چند پیسوں میں کھچڑی کی پلیٹ مل جاتی۔ مقبول فدا حسین کی ریڑھیوں سے کچھ سادہ سا کھا کر پیٹ بھرنے کی عادت تب بھی باقی رہی جب وہ کروڑ پتی بن چکے تھے اور ان کی پینٹنگز کروڑوں میں فروخت ہوتیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج اچانک مقبول فدا حسین المشہور ایم ایف حسین کی طرف خیال کیسے چلا گیا؟
ہوا یوں کہ چار پانچ دن پہلے خبر آئی کہ نئی دہلی کی ایک عدالت نے مصور ایم ایف حسین کی دو متنازع پینٹنگز ضبط کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ کناٹ پیلس دہلی کی کسی آرٹ گیلری میں وہ تصاویر موجود تھیں، ایک وکیل نے ان کی شکایت کی تو عدالت نے حکم جاری کیا۔ ان تصاویر میں دراصل ہندو دیوی دیوتاؤں کو ایک خاص انداز سے پینٹ کیا گیا، جس پر ہندو مذہبی حلقوں کے اعتراضات تھے۔
خیر ہم اس متنازع پینٹنگز والے تنازع میں نہیں جاتے کہ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ میری دلچسپی ایم ایف حسین میں ہے۔ چند ہفتے قبل معروف انڈین مصنف اور ڈرامہ نگار جاوید صدیقی کے شاندار خاکوں کا مجموعہ ’میرے محترم‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایم ایف حسین پر بھی ایک دلکش اور پڑھنے سے تعلق رکھنے والا خاکہ موجود ہے۔ تب سے ایم ایف حسین کی شخصیت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس خبر کے بعد ان کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش بھی کی۔
ہمارے ہاں بلکہ انڈین میڈیا میں بھی ایم ایف حسین کی ایک وجہ شہرت اداکارہ مادھوری ڈِکشٹ کے لیے ان کی پسندیدگی اور فریفتگی ہے۔ مادھوری والا قصہ بھی غضب کا ہے، مگر حسین اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔
مادھوری کی مشہور فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایم ایف حسین نے 70 سے زیادہ بار دیکھی۔ خود انہیں بھی یاد نہیں تھا کہ کتنی بار دیکھی۔ کہا جاتا ہے کہ ممبئی کے لبرٹی سنیما میں انہوں نے پہلی بار یہ فلم دیکھی اور اس کے مشہور گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ میں مادھوری کے رقص سے ازحد متاثر ہوئے۔ بعد میں لبرٹی کے ہر شو میں ان کے لیے ایک سیٹ ریزرو رہتی، جب بھی موقع ملتا، جا کر بیٹھ جاتے۔ اس فلم کے ایک سال تک ایم ایف حسین نے مادھوری سے ملنے کی کوشش نہیں کی، اس دوران وہ اپنے مخصوص انداز میں لمبے چوڑے کینوس پر مادھوری کی پینٹنگز بناتے رہے۔ بعض میں چہرہ بنائے بغیر صرف اس کے حسین وجود کو پینٹ کر ڈالا۔ دلچسپ بات ہے کہ ان تمام تصویروں میں ایم ایف حسین نے فدا کے نام سے دستخط کیے۔ حالانکہ ان کی باقی تمام فلموں میں پورے نام کے ساتھ دستخط ہوتے۔
حسین کی ان پینٹنگز کی دھوم مچ گئی، افسانہ مشہور ہو گیا۔ بہت سوں نے اعتراض اور تنقید بھی کی کہ اتنا بڑا اور عمر رسیدہ مصور اور حرکت نوجوان لڑکوں جیسی، فلم سٹار کی فلم دیکھ کر لٹو ہو گیا۔ یاد رہے کہ تب حسین کی عمر 79 برس تھی۔ ایم ایف حسین نے کبھی ان اعتراضات کی پروا نہیں کی تھی۔
انہی دنوں مادھوری کو اس سب کا پتہ چلا تو اس نے انہیں چائے پر مدعو کیا۔ ایم ایف حسین کے ہاتھ میں اپنا پینٹنگ والا لمبا برش ہمیشہ رہتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک سنیما میں فلم دیکھتے ہوئے جیسے ہی مادھوری سکرین پر آئی، ایم ایف حسین نے بے خود ہو کر اپنا برش سٹیچ کی طرف اچھال دیا، گویا کسی دیوی کے چرنوں میں پھول نچھاور کر ڈالا ہو۔ مشہور آدمی تھے، لوگ پہنچانتے تھے، سنیما مینجر نے وہ برش بعد میں حسین کو پیش کیا اور کہا جب آپ کی ملاقات مادھوری سے ہو تو اسے یہ دیجیے گا۔
اپنی پہلی ملاقات میں ایم ایف حسین نے ایسا ہی کیا۔ وہ برش انہوں نے مادھوری کے ہاتھ میں تھما دیا۔ واپسی پر برش نہ لیا تو مادھوری نے شوخی سے کہا، ’آپ اپنا برش مجھے دے رہے ہیں، میں پینٹنگز بنانا شروع نہ کر دوں۔ ایم ایف حسین نے مسکرا کر جواب دیا، پھر میں بالی وڈ کے لیے فلمیں بنانا شروع کر دوں گا۔‘
ایم ایف حسین نے یہ واقعہ اپنی خود نوشت میں بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’مادھوری نے یہ فقرہ سات مئی 1995 میں کہا اور جولائی 1998 میں مادھوری ڈکشت ایم ایف حسین کی فلم ’گجنی گامنی‘ (جامنی) کی شوٹنگ کرا رہی تھیں۔ ایک انڈین عورت کے کئی روپ میں: کالی داس کی شکنتلا، پریم چند کی نِرملا، ٹیگور کی اپھساریکا، منٹو کی سوگندھی، دال منڈی کی نابینا سنگیتا، ستارہ کی نور بی بی اور 21ویں صدی کی ماڈرن مونیکا کے کرداروں میں۔‘
حسین کی بہت سی پینٹنگز کا موضوع گھوڑے تھے۔ ان کی گھوڑوں والی تصویریں بہت مشہور تھیں۔ فلم ’گجنی گامنی‘ بنانے کے لیے حسین نے اپنی ان تصاویر کو فروخت کر دیا، اگلے کئی ماہ تک تصویریں بنا کر سات کروڑ روپے جمع کیے اور پھر فلم بنا ڈالی۔
’گج گامنی‘ میں مرکزی کردار ظاہر ہے مادھوری ڈکشٹ کا تھا، اس میں شبانہ اعظمی، نصیر الدین شاہ وغیرہ نے بھی کام کیا، مختصر سا مہمان کردار شاہ رخ خان کا بھی تھا۔ فلم کے ہدایت کار ایم ایف حسین ہی تھے۔ موسیقی بھوپن ہزاریکا نے دی۔ یہ فلم کئی اعتبار سے کلاسیک ہے، بہت خوبصورت، آرٹسٹک فلم، معنی خیز علامتیں، موسیقی اور گانے بھی کمال۔ تاہم فلم ڈیڈ فلاپ ہوئی کیونکہ یہ عام لوگوں کے لیے بنائی ہی نہیں گئی تھی۔ آج کا دور ہوتا تو شاید نیٹ فلکس وغیرہ پر چل جاتی۔ ویسے حسین کو فلم کی ناکامی کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ’میں فلم اپنے اور اپنے تین دوستوں کے لیے بناتا ہوں۔ اگر ان کو پسند آ گئی تو میری محنت وصول۔ من پسند کام میں نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا۔‘
’گج گامنی‘ کا نام منفرد ہونے کے ساتھ بامعنی ہے۔ اس کا مطلب ہتھنی کی چال۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کی چال (Gait)بہت مختلف اور منفرد ہے۔ قدیم داستانوں میں حسین ترین خاتون کی تعریف میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس کی چال ہتھنی جیسی ہے۔
خاکسار نے اس نکتہ کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کی۔ کچھ ریسرچ کی۔ گرافکس کے ذریعے ہتھنی کی چال دیکھی۔ ویڈیو کلپس بھی دیکھے، مگر کچھ خاص سمجھ نہیں آیا، البتہ جب سنجے لیلا بھنسالی کی سیریز ’ہیرا منڈی‘ میں رقاصہ بیبو جان (اداکارہ ادیتی راؤ حیدری) کی ’گج جامنی‘ چال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ کے گانے ’دیدی تیرا دیور دیوانہ‘ پر مادھوری کے رقص مستانہ نے ایم ایف حسین پر کیا اثر ڈالا ہو گا۔ سنجے لیلا بھنسالی بھی لگتا ہے ایم ایف حسین کا مداح ہوگا تب ہی اس نے یہ تجربہ کر ڈالا۔
ادیتی راؤ کا ایک منٹ کا کلپ یوٹیوب پر پڑا ہے۔ ’گج جامنی‘ فلم بھی یوٹیوب پر موجود ہے، وقت ہے تو ضرور دیکھیے گا۔ آدمی کو زندگی میں کبھی کبھار کوئی آرٹسٹک اور اپنی سطح سے اوپر کی چیز بھی دیکھنی اور پڑھنی چاہیے، ارتقا تب ہی ممکن ہے۔
ایم ایف حسین مادھوری کے حوالے سے سوالات کا جواب مسکرا کر ٹال دیتے تھے۔ صرف ایک بار جواب دیا، کہنے لگے ’ہاں میں نے مادھوری ڈکشٹ شکل میں پہلی بار ایک مکمل عورت کو دیکھا۔ ایک مکمل ہندوستانی عورت جو بیک وقت ٹریڈیشنل بھی اور ماڈرن بھی۔ مجھے اس میں عورت کا ہر روپ نظر آیا۔ اس میں اپنی ماں بھی نظر آئی جو مجھے ڈیڑھ برس کا چھوڑ کر چلی گئی تھی۔‘
الجزیرہ کے ایک انٹرویو میں حسین سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی زندگی میں اتنی دیر سے فلم بنانے کا کیوں سوچا؟ ان کا جواب تھا، ’بہت پہلے سے بنانا چاہ رہا تھا، موقع نہیں ملا، اس 60 سال میں سے 30 سال تو مادھوری کے پیدا ہونے اور جوان ہونے کی وجہ سے بھی دیر ہوئی۔‘
ویسے کمرشل فلمیں حسین نے بعد میں بنائیں، مگر ان کی ایک ڈاکیومنٹری ’تھرو دا لینز آف اے پینٹر‘ پر انہیں 1967 میں برلن فلم فیسٹیول سے گولڈن بیئر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
ایم ایف حسین کی دوسری فلم ’میناکشی، اے ٹیل آف تھری سٹیز‘ اس سے چند سال بعد بنائی گئی۔ ’گج گامنی‘ کے بعد مادھوری ڈکشٹ شادی کر کے امریکہ شفٹ ہو گئیں۔ سنہ 2005 میں حسین نے ایک اور دلکش اداکارہ تبو کو لے کر یہ فلم بنائی، اس میں تبو کا ٹرپل رول تھا۔ اس میں جن تین شہروں کا تذکرہ ہے، وہ حیدرآباد، جیسلمیر اور یورپی شہر پراگ ہے۔ فلم کو سراہا گیا، اس کے گانے بھی مقبول ہوئے اور نیشنل فلم ایوارڈز میں اسے ایک کیٹیگری پر ایوارڈ بھی ملا۔
مصنف، فلم رائٹر جاوید صدیقی اپنے خاکے میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار مجھے ایم ایف حسین نے بلایا، پتہ چلا کہ وہ تیسری فلم بنانا چاہتے ہیں۔ جس میں تین لڑکیاں ہوں، ایک اندھی، ایک گونگی، ایک بہری۔ یہ تینوں ایک دوسرے کی کمزوری کو یوں سنبھالتی ہوں کہ سیچوئیشن بنی رہی۔‘
اس فلم کے سلسلے میں جاوید صدیقی کی حسین سے درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ فلم دیکھنے کے وہ شوقین تھے، ایک شو دیکھ کر نکلتے تو دوسرے میں گھس جاتے۔ پھر ان فنکاروں پر تبصرے کرتے۔
حسین اپنی فلم میں ایسی لڑکیوں کو لینا چاہتے تھے جو انڈین حسن کا نمونہ ہوں۔ چہرے پر نمک ہو اور تمکنت بھی۔ آنکھوں میں مستی، ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ ہو اور بال لمبے ہوں۔ ایسی لڑکیاں انہیں نہیں مل پا رہی تھیں۔ وہ شاقی رہتے کہ آج کل اچھی فلمیں بنتی ہیں اور نہ فلم کے لیے اچھی لڑکیاں ملتی ہیں۔
آخر کار دو لڑکیوں پر رضامند ہو گئے، ایک ارمیلا ماتونڈکر (رنگیلا فلم کی ہیروئن)، دوسری سونالی کلکرنی، پھر ایک دن تیسری لڑکی بھی چن لی، امرتا راؤ (شاہ رخ خان کی فلم میں ہوں ناں کی ہیروئن)۔ امرتا راؤ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حسین نے ان کی پینٹنگ بھی بنائی۔
جاوید صدیقی کے بقول ’تین لڑکیاں سلیکٹ کر لینے کے بعد ایم ایف حسین دبئی چلے گئے، مہینے بعد لوٹے تو دھماکہ کر دیا، پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس ایسا کوئی موضوع ہے جو مادھوری کو لے کر بنایا جا سکے۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو فلم لائن چھوڑ کر امریکہ جا چکی ہے۔ ایم ایف حسین بہت دیر تک اپنے برش سے کھیلتے رہے پھر بولے، لانے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے؟ جاوید صدیقی نے پوچھا پھر تین بہنوں والی فلم کا کیا ہو گا؟ حسین کہنے لگے، وہ بعد میں بنائیں گے۔ جاوید صدیقی نے اس دن گھر آ کر تین بہنوں والی فلم کا سکرپٹ لپیٹ کر الماری میں بند کر دیا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ فلم کبھی نہیں بن سکتی کیونکہ وہ جگہ ارملا، سونالی یا امرتا راؤ نہیں بھر سکتی جو مادھوری نے خالی کی تھی۔‘
ایم ایف حسین مگر صرف مادھوری کے پرستار ہی نہیں تھے، ان کی زندگی کے کئی شیڈز تھے۔ وہ ایک کشادہ دست، نہایت فراخدل آدمی تھے۔ ایک بار ان کی 22 مشہور پینٹنگز کی نمائش تھی، انہوں نے آرٹ کالج کے 22 طلبہ کو مدعو کیا اور کہا کہ اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی بے شک کوئی وزیر وغیرہ ہوگا، مگر تصاویر آپ نے اتارنی ہیں۔ تقریب کے اختتام پر ان 22 طلبہ نے تصاویر دیوار سے اتاریں اور پھر حسین کی طرف دیکھا کہ کہاں رکھوانی ہیں۔ انہوں نے فراخدلی سے کہا، انہیں اپنے گھر لے جاؤ۔ وہ بیش قیمت تصویریں یوں مل جانے پر طلبہ کو یقین نہ آتا تھا۔ حسین مگر ایسے ہی تھے، کئی اداکاروں کے سیکرٹریز تک کو اپنی قیمتی تصاویر دے ڈالیں۔
ان کی ایک اور عجیب عادت یہ تھی کہ جوتے نہیں پہنتے تھے، ہمیشہ اور ہر جگہ ننگے پاؤں پھرتے۔ نجانے اس کی وجہ کیا تھی، حسین نے کبھی کسی کو پوچھنے پر بھی نہیں بتایا تھا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ میری صحت کا راز یہی ہے کیونکہ تمام اعصاب پیروں میں ہوتے ہیں تو ننگے پاؤں چلنے سے میری اچھی ورزش ہوتی رہتی ہے۔
مشہور اداکار راج ببر اور ان کی اہلیہ نادرہ ببر کے گھر وہ آتے رہتے تھے، ایک بار ان کے نئے گھر میں آئے۔ مختلف کمرے دیکھتے رہے، پھر ہال کی سفید دیوار کو دیکھ کر کہا کہ میں اس پر میورل (Mural) بناؤں گا۔ میزبان ظاہر ہے خوش ہوگئے۔ حسین نے دیوار پر اپنے موٹے کالے قلم سے چند لکیریں کھینچیں اور کہا کہ اگلی بار آؤں گا تو رنگ بھر دوں گا۔ پھر ایک دن آئے اور آدھی تصویر میں رنگ بھر کر چلے گئے۔ کئی ماہ بعد پھر آئے اور کچھ مزید رنگ کر گئے، یوں دو ڈھائی سال میں وہ دیوار کی تصویر مکمل ہوئی، مگر وہ شاہکار نادرہ راج ببر کے گھر میں امر ہو گیا۔
ایم ایف حسین نے رامائن، مہا بھارت، گاندھی، مدر ٹریسا اور برٹش راج پر بھی تصاویر کی سیریز بنائیں، جنہیں ماہرین نے بہت سراہا۔ آخری برسوں میں تنازعات کی وجہ سے انہیں انڈیا چھوڑ کر قطر جانا پڑا۔ وہاں انہیں شہریت بھی مل گئی تھی۔ ان کا دل مگر انڈیا ہی میں اٹکا تھا، حسین امریکہ اور برطانیہ جاتے رہتے تھے، برطانیہ ہی میں سنہ 2011 میں 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مادھوری ڈکشٹ نے ان کے انتقال کے بعد ایک ٹی وی شو میں بتایا کہ ایک بار حسین امریکہ میں ان کے گھر ٹھہرنے آئے۔ صرف ایک چھوٹا سا بیگ ہاتھ میں تھا۔ آتے ہی مادھوری سے بولے کہ مجھے کینوس لا دو۔ مادھوری ڈکشٹ نے کہا، آپ لمبا سفر کر کے آئے ہیں، کچھ آرام کر لیں۔ حسین بولے، مجھے تصاویر بنانے ہی میں آرام ملتا ہے۔ مادھوری نے کہا کہ کینوس تو میرے پاس ہے مگر رنگ نہیں۔ حسین نے اپنا وہی بیگ کھولا جو رنگوں کی ڈبیوں سے بھرا ہوا تھا۔ مادھوری نے حیرت سے پوچھا آپ کے کپڑے کہاں ہیں؟ ایم ایف حسین نے جواب دیا، جو کپڑے پہن رکھے ہیں، وہی کافی ہیں، دوسرے جوڑے کی ضرورت نہیں۔
ایسا ہی تھا یہ مصور جس نے خیال، رنگ اور اچھوتے اظہار کی انوکھی دنیا بسائی اور ویسی تخلیقات دیں۔