’تین طرح کی دنیائیں ہیں۔ سورگ ، دھرتی لوک اور پاتال۔‘
یہ ہے وہ مکالمہ جس کی بنیاد پر پرائم ویڈیو ایمیزون کے لیے ایک مقبول انڈین ویب سیریز ’پاتال لوک‘ بنائی گئی۔ اس کا پہلا سیزن چار سال پہلے آیا تھا اور دوسرا سیزن دو تین ہفتے قبل آیا اور وہ سپرہٹ رہا ہے۔
اس میں سورگ سے مراد طاقتور مراعات یافتہ طبقہ، دھرتی لوک عام آدمی اور پاتال سے مراد نچلے طبقے کے لوگ سمجھ لیں۔ ویسے مِتھ کے مطابق پاتال سے مراد زیرِ زمین ایسا طبقہ ہے جہان عفریت رہتے ہوں، یہ علامت مہا بھارت میں بھی آئی۔
پاتال لوک کے دونوں سیزن دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ یہ صرف کوئی عام ٹی وی ڈرامہ نہیں۔ اگرچہ اس میں اداکاری کا لیول بہت اچھا ہے، مضبوط سکرپٹ، عمدہ ڈائریکشن نے اسے اہم واچ ایبل تھرلر بنا دیا، اس نے انڈیا کے موقر فلم فیئر ایوارڈز کی او ٹی ٹی کیٹیگری میں کئی انعام جیتے۔ یہ مگر صرف ڈرامہ نہیں جسے دیکھنے کے بعد مزا لیا جائے اور بس۔ پاتال لوک میں کئی ایسی دلچسپ علامات اور بہت جاندار مکالمے ہیں جنہیں ہم اپنے سماج سے بھی جوڑ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883698
پاتال لوک کا مرکزی کردار انسپکٹر ہاتھی رام ہے جسے اداکار جے دیب اہلوات نے ادا کیا ہے۔ لگتا ہے کہ کردار ان کے لیے ہی لکھا گیا۔ وہ اس میں نگینے کی طرح فٹ ہوگئے۔ ہاتھی رام آپ سمجھ لیں دھرتی لوک کا باشندہ ہے جسے اپنی پولیس کی ملازمت کی وجہ سےسورگ یعنی طبقہ اشرافیہ اور نچلے ترین طبقے پاتال تک رسائی ہے۔
فلم میں یہ دکھایا گیا کہ کس طرح طاقتور اشرافیہ کا طبقہ استحصال کرتا ہے اور پاتال لوک کے باسی کیڑے مکوڑوں کی طرح استعمال ہو جاتے ہیں۔ کبھی مذہبی شدت پسندی پر تو کبھی کسی اور حوالے سے برتے جاتے ہیں۔ جبکہ عام لوک کے باسی جو دونوں انتہائی طبقات میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں، وہ بھی دراصل استحصالی طبقات کے لیے کام کرتے ہیں، پولیس، بیوروکریسی، میڈیا اور دیگر جگہوں کے پروفیشنلز۔ ڈرامے میں ایک جگہ پر یہ مکالمہ بولا جاتا ہے:
’ریس کے گھوڑے کو پتہ ہوتا ہے کہ جیتنے کے بعد میڈل اس کو نہیں ملنے والا، اس کو بس چارہ ملے گا پھر بھی بھاگتا ہے ساری زندگی۔‘
سوال مگر یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ ہاتھی رام کا کردار ناظرین کو یہ سمجھاتا ہے کہ انصاف اور ایمانداری سے اپنا کام کیا جائے اوراپنی ذات کو کھوجا جائے، اپنے دل سے چیزوں کو دیکھا اور سمجھا جائے، صرف بے رحم حقیقت پسندی تو مفاد پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس لیے دماغ کے بجائے دل کو پاسبان بنایا جائے، تب نتائج مختلف ہوں گے۔ ہاتھی رام چودھری کا ایک مزے کا ڈائیلاگ ہے: ’جب لوگ اپنے دماغ سے کام کرتے ہیں تو پھر سچائی کی دنیا کیسے سمجھ سکتے ہیں؟‘
ہاتھی رام چودھری کا کردار دلچسپ ہے۔ وہ ایک ایماندار پولیس افسر ہے جو رشوت نہیں لیتا، بدعنوان نہیں، مگر وہ ایک خود دار، عزت نفس رکھنے والا جاٹ ہے، جس کی انا بلند ہے۔ ایک سین میں اس کا اعلیٰ افسر کہتا ہے تم اپنی چودھراہٹ چھوڑ کر اس پر کام کرو تو ٹھیک رہے گا۔ ہاتھی رام اسے ترنت جواب دیتا ہے، سر آپ نے چودھراہٹ کے بغیر بھی کوئی چودھری دیکھا ہے؟
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2025/whatsapp_image_2025-02-03_at_12.30.05_am.jpeg)
جے دیپ اہلوات کی شخصیت بھی دلچسپ ہے، پچھلے چند برسوں میں انہیں کئی اہم پراجیکٹ ملے ہیں اور اپنی شناخت بنائی ہے۔ ہاتھی رام کے کردار میں کسی حد تک نفسیاتی پیچیدگی بھی ہے اور اسے نبھانا آسان نہیں تھا۔
ایک ایماندار پولیس افسر جو ایماندار ہے، اپنی دنیا بدلنا چاہتا ہے، اپنے بیٹے کو اچھے انگریزی سکول داخل کرا کر پڑھانا اور اسے دھرتی لوک سے سورگ کی دنیا کا باسی بنانا چاہتا ہے، وہ ترقی بھی چاہتا ہے، مگر اپنی ایمانداری کی وجہ سے اکثر پیچھے رہ جاتا ہے، اسے بار بار معطل کر دیا جاتا ہے۔ اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی، اس کے جونیئرز آگے نکل جاتے ہیں اور اسے اکثر دل شکستگی اور فرسٹریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس ٹینشن کو بھلانے کے لیے وہ گونہ بے خودی کا سہارا بھی لیتا ہے، اسی کی آنکھیں بھی اسی وجہ سے سوجی سوجی اور نیم خوابیدہ سی لگتی ہیں۔ اس کی بیوی سخت نالاں ہے، بیٹا باغی ہو گیا اور گھر میں سکون ملتا نہ ہی دفتر میں آسودگی اور ترقی۔ انسپکٹر ہاتھی رام چودھری اس کے باوجود اپنی دیانت پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ تاہم اپنے مخصوص جلے کٹے اور کھلے ڈلے انداز اور ہریانوی لہجے میں وہ تیکھے جملے بولتا رہتا ہے۔ یہی ڈائیلاگز اس ڈرامہ سیزن کی جان ہیں۔
’یہ جو دنیا ہے ناں دنیا، یہ ایک نہیں تین ہیں۔ سب سے اوپر سورگ جہاں دیوتا رہتے ہیں، پھر دھرتی جہاں آدمی رہتے ہیں اور سب سے نیچے پاتال جہاں قیدی رہتے ہیں۔‘
’ویسے تو سب شاستروں میں لکھا ہوا ہے، یہ بات میں نے مگر واٹس ایپ میں پڑھی تھی۔‘
’میڈم تجسس (کیوروسٹی) بہت بری چیز ہے، آدمی کو معطل کرا دیتی ہے۔‘
’مجھے لگتا ہے کبھی انسان کو اپنی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تب ہی وہ اپنی سچائی کا سامنا کر سکتا ہے۔‘
’زندگی کبھی کسی کے لیے نہیں رکتی، بس چلتی رہتی ہے۔‘
’لوگوں کو ان کا حق دینا ہے، مگر یہ سچ ہے کہ کسی کا حق اس کے سپنے جتنا آسان نہیں ہوتا۔‘
’جب تک ہم اپنی زندگی کی سچائی سمجھ نہیں پاتے، تب تک دنیا کو بدل نہیں پاتے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2025/whatsapp_image_2025-02-03_at_12.30.23_am.jpeg)