Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی شہریوں کا ’ لارنس آف عربیہ ‘  کے تاریخی راستے پر دوبارہ سفر

مہم جو ٹیم نے 25 دن کے ناقابل فراموش سفر میں روزانہ 50 کلومیٹر کا ہدف رکھا۔ فوٹو عرب نیوز
سابق برطانوی فوجیوں کے قافلے کے چار اونٹ سواروں نے تاریخی سفر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مملکت اور اردن کی صحراؤں سے گزر کر ’ لارنس آف عربیہ‘  کا راستہ دوبارہ عبور کیا۔
عرب نیوز کے مطابق یہ کٹھن مہم جوئی تاریخی اور افسانوی صحرائی سفر سے متاثر ہو کر کی گئی جو برداشت، قدیم تاریخ اور سخت مہم جوئی کا منفرد امتزاج تھی۔
یہ وہی راستہ ہے جسے پہلی جنگ عظیم کے دوران ٹی ای لارنس اور ان کے عرب اتحادیوں نے اختیار کیا اور پہلی جنگ عظیم کے نتائج پر اس صحرائی راستے کے گہرا اثرات تھے۔
برطانوی مہم جو ہاورڈ لیڈھم نے بتایا ہے ’ گزشتہ سال ہم چند دوست حالیہ تاریخ میں اونٹوں کے مشہور سفر کے بارے میں سوچ رہے تھے تو ہمیں ’لارنس آف عربیہ‘ یاد آیا۔
اس صحرائی راستے کا مہماتی سفر ٹی ای لارنس کے ہمراہ نصیب البکری، عودہ ابو طائی اور شریف ناصر کے بعد کسی نے بھی دوبارہ طے نہیں کیا۔

یہ کٹھن مہم جوئی افسانوی صحرائی سفر سے متاثر ہو کر کی گئی۔ فوٹو عرب نیوز

ٹی ای لارنس نے اپنے عرب اتحادیوں کے ہمراہ یہ سفر مملکت کے شمال مغربی علاقے الوجہ سے 1917 میں کیا تھا اور وسیع صحرا سے گزرتے ہوئے اردن کے علاقے عقبہ کی طرف بڑھتا گیا۔
لارنس کی مشہور کتاب ’سیون پلرز آف وزڈم‘ میں اس صحرائی سفر کے دوران ان تاریخی مقامات کا بھی ذکر ملتا جو راستے میں انہوں نے دیکھے۔
لیڈھم نے مزید بتایا ’ہم نے اپنے روٹ کو اصل راستے کے زیادہ سے زیادہ قریب رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔

افسانوی صحرائی سفر برداشت اور سخت مہم جوئی کا منفرد امتزاج رہا۔ فوٹو عرب نیوز

انہوں نے مزید بتایا ’ہم نے 14 جنوری کو الوجہ سے اپنا سفر شروع کیا، اونٹ تبوک سے لیے اور ہمراہ سامان کے لیے گاڑی جدہ  سے حاصل کی اور 1100 کلومیٹر کا فاصلہ 25 دن میں طے کیا۔
لیڈھم نے بتایا ’صحرائی سفر میرے لیے نیا نہیں، یہ میرا مشغلہ ہے، اس سے پہلے دو مرتبہ متحدہ عرب امارات کے ’ربع الخالی‘ کا علاقہ اونٹوں پر عبور کر چکا ہوں۔
برطانوی شہری کے دیگر ساتھیوں میں مارٹن تھامپسن، ریاض میں مقیم کریگ روس، مائیک بیکر اور جیمز کالڈر شامل تھے جو تمام سابق برطانوی فوجی ہیں۔ 

ٹی ای لارنس نے یہ سفر شمال مغربی علاقے الوجہ سے 1917 میں کیا تھا۔ فوٹو عرب نیوز

اس مہم کے دوران کئی تاریخی مقامات کا ذکر ہے جن میں بحیرہ احمر کا ساحلی شہر الوجہ، عقبہ، وادی رم، حجاز ریلوے، معان، مدینہ، وادی بیر، دثنہ کا کنواں اور معروف نخلستان شامل ہے۔
لیڈھم نے سفر کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’ صحرائی علاقے میں نیویگیشن ایک بڑا چیلنج رہا، الوجہ سے روانگی کے ابتدائی دن مشکل مرحلہ تھا، حجاز پہاڑوں تک پہنچنے میں دو دن لگے، ہر روز مختلف جغرافیہ دیکھنے کو ملا۔

سفر کے لیے اونٹ تبوک سے اور سامان کے لیے گاڑی جدہ سےلی۔ فوٹو عرب نیوز

راستے میں نمکین جھیلیں، چٹانی صحرا، آتش فشاں پہاڑ، نخلستان، سنہری اور سرخ ریت کے وسیع میدان اور پس منظر میں پہاڑ حسین منظر پیش کر رہے تھے جیسے کسی نے پینٹنگ کی ہو۔
دشوار گزار راستے کے لیے جدید نیویگیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے گوگل میپس پر روٹ کی منصوبہ بندی کے بعد جی پی ایس سے سپورٹ ملی لیکن پہاڑی علاقوں میں نقشوں کی معلومات محدود تھیں لہذا کسی جگہ پہاڑ کی بلندی پر راستہ خود بنانا پڑا۔

دشوار گزار راستے کے لیے جدید نیویگیشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ فوٹو عرب نیوز

خصوصی اجازت نامے حاصل کر کے پرنس محمد بن سلمان رائل ریزرو اور کنگ سلمان بن عبدالعزیز نیچر ریزرو کے علاقوں سے گزرے، ان علاقوں میں رینجرز نے مدد کی۔ ان مقامات کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کو قریب سے دیکھنا ناقابل یقین تجربہ تھا۔
برطانوی مہم جو ٹیم نے 25 دن کے ناقابل فراموش سفر میں روزانہ 50 کلومیٹر کا ہدف رکھا اور ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ کامیابی سے طے کرتے ہوئے ایک صدی قبل رقم کی گئی تاریخ کو دوبارہ زندہ کیا۔
 

 

شیئر: