سعودی تاریخ دان اورماہر آثار قدیمہ عمر ناصر الاسمری نے کہا ہے کہ ’طائف شہر کو مکہ مکرمہ کے مشرقی سمت کا دروازہ مانا جاتا ہے۔ یہ شاہراہ عہد رفتہ میں حج اور تجارتی قافلوں کے لیے انتہائی اہم مانی جاتی تھی۔‘
سبق نیوز کے مطابق سعودی عرب کے یوم تاسیس پر تاریخ دان نے بتایا کہ ’طائف کا علاقہ معاشی حوالے سے بھی اہم ہے خاص طور پر زراعت کے شعبے میں اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کی سرزمین اور موسم کی وجہ سے انواع و اقسام کی اجناس کی کاشت یہاں انتہائی کامیابی سے کی جاتی ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
سعودی ہیریٹج کمیشن میں مزید 3 ہزار 202 تاریخی مقامات کا اندراجNode ID: 884482
-
مکہ کے قدیم محلے، بعض کے نام 400 سے 600 برس پرانے ہیںNode ID: 885717
اسی طرح اہل حجاز کے لیے طائف موسم گرما میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ جب دیگر علاقے گرمی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں تو یہاں کا موسم معتدل رہتا ہے جس کے باعث اہل حجاز گرم موسم میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
ناصرالاسمری نے مزید کہا کہ ’سال 1727 میں جب شہزادہ محمد بن سعود نے الدرعیہ کی گورنری سنبھالی اور وہاں امن و انصاف کا نظام رائج کیا تو اس کے اثرات حجاج اور تجارتی قافلوں کے ذریعے طائف تک پہنچے۔‘
’اس وقت وہاں کے گورنر شہزادہ عثمان بن عبدالرحمان المضایفی العدوانی کو بھی معلومات منتقل ہوئی جنہوں نے الدرعیہ کا دورہ کیا اور بذات خود ان امور کا مشاہدہ کیا اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔‘
سال 1802 میں طائف بھی سعودی حکومت کی حدود میں شامل ہو گیا اور المضایفی کو وہاں کا باقاعدہ گورنر بنایا گیا جس سے امنِ عامہ اور حج و تجارت کے راستے مزید محفوظ ہو گئے اورطائف کو سعودی حکومت میں اہم حیثیت حاصل ہو گئی۔
ناصرالاسمری کا مزید کہنا تھا کہ’بانی مملکت شاہ عبدالعزیز بھی موسم گرما میں طائف شہر میں آیا کرتے تھے، اس لیے اس شہر کو موسم گرما میں دارالحکومت کا درجہ مل جاتا تھا۔‘
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس شہرکی تعمیر و ترقی کے حوالے سے خصوصی توجہ دی اور یہاں متعدد بڑے منصوبے شروع کرائے جس سے اس تاریخی شہر کا نقشہ ہی بدل گیا۔