Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصطفیٰ کیس، بنگلہ نمبر 35 جس کی سکیورٹی ’خفیہ ایجنسی کے دفتر سے کم نہیں‘

مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بنگلہ نمبر 35 میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کی جانچ کی جائے (سکرین گریب)
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں واقع بنگلہ نمبر 35 ان دنوں ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ وہی بنگلہ ہے جس میں سرزد ہونے والے جُرم نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
یہاں غیر قانونی سرگرمیوں کی بازگشت برسوں سے سنائی دے رہی تھی، لیکن کسی نے زیادہ غور نہیں کیا۔
بنگلہ باہر سے دیکھنے میں تو ایک عام سا گھر لگتا ہے لیکن اندر جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک رہائش گاہ نہیں۔
درجنوں خفیہ کیمرے، 100 سے زائد پرائیویٹ گارڈز، مہنگی گاڑیاں، جدید ہتھیار اور ایک خفیہ کال سینٹر۔ اس بنگلے میں سکیورٹی کا نظام کسی خفیہ ایجنسی کے دفتر سے کم نہیں۔
چھ جنوری 2025 کی وہ شام عام شاموں جیسی تھی مگر مصطفیٰ عامر کے لیے نہیں۔
 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر جس کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجے تھے، اچانک غائب ہو گیا۔
اس کا فون بند تھا، اہلِ خانہ اور دوست احباب رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن مصطفیٰ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔
چند دن بعد11 فروری کو حب کے ویران علاقے سے گاڑی میں سے جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہوئی کہ یہ لاش کسی اور کی نہیں بلکہ مصطفیٰ عامر کی تھی۔
قتل کی اس ہولناک واردات سے ہر کسی کا دل دہل گیا۔ وہ لڑکا جو چند دن پہلے تک اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستا کھیلتا نظر آتا تھا، اب دنیا میں نہیں رہا تھا۔
مگر سوال یہ تھا کہ مصطفیٰ کو اغوا کے بعد قتل کیوں کیا گیا؟ اور اس کا قاتل کون تھا؟
تحقیقات شروع ہوئیں تو سب کی نظریں بنگلہ نمبر 35 پر جم گئیں۔ اس بنگلے میں مصطفیٰ کا دوست ارمغان قریشی نامی نوجوان رہتا تھا۔
ارمغان کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ نہ صرف اس قتل میں ملوث ہے بلکہ کئی برسوں سے غیر قانونی سرگرمیوں کا بھی حصّہ ہے۔

چالان میں یہ انکشاف ہوا کہ ارمغان قریشی آٹھ سال سے ویڈ (چرس) منگوا کر نشہ کر رہے تھے (فوٹو: گیٹی امیجز)

بدھ کے روز مصطفیٰ قتل کیس کی سماعت کے دوران مزید تہلکہ خیز انکشافات ہوئے۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ارمغان قریشی کے خلاف منشیات کے دو مقدمات کی سماعت ہوئی جس میں تفتیشی حکام نے کیس کا چالان اور تفصیلات پیش کیں۔
چالان میں یہ انکشاف ہوا کہ ارمغان قریشی آٹھ سال سے ویڈ (چرس) منگوا کر نشہ کر رہے تھے۔
2017 سے 2019 تک انہوں نے نو بار منشیات کے پارسل منگوائے۔ یہ پارسل وہ اپنے اور اپنے والد کے نام پر منگوایا کرتے تھے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ دیگر ملزمان بھی ان کے ساتھ کیفے اور پارٹیوں میں نشہ کیا کرتے تھے۔
عدالت نے ملزم کو 18 مارچ کو منشیات کیس میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس سے قبل آٹھ فروری کو جب پولیس نے بنگلے پر چھاپہ مارا تو وہاں پولیس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے ہی پولیس اہلکار گھر کے اندر داخل ہوئے، گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔
ارمغان قریشی نے پولیس پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اور ان کا ایک محافظ زخمی ہو گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب پولیس کو اندازہ ہو گیا کہ یہ صرف قتل کا کیس نہیں بلکہ اس میں دیگر کئی مجرمانہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔  
بالآخر کئی گھنٹوں بعد پولیس نے ارمغان کو گرفتار کر لیا اور اس طرح مصطفیٰ عامر قتل کیس کی اہم ترین کڑی پولیس کے ہاتھ لگ گئی۔

ڈی ایچ اے مکینوں کا احتجاج

یہ واقعہ پورے علاقے کے مکینوں کے لیے خوف اور غصے کا باعث بنا ہوا ہے۔
ڈیفنس کے رہائشیوں نے اعلیٰ حکام کو ایک باقاعدہ خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ بنگلے کے اصل مالک کو سامنے لایا جائے اور وہاں ہونے والی تمام سرگرمیوں کی تفصیلی جانچ کی جائے۔

ڈیفنس کے رہائشیوں نے اعلیٰ حکام کو ایک باقاعدہ خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ بنگلے کے اصل مالک کو سامنے لایا جائے (فوٹو: سوشل میڈیا)

خط میں لکھا گیا ہے کہ ’ارمغان قریشی کے والد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے کیونکہ یہ سب ان کے بیٹے کی سرپرستی میں ہو رہا تھا۔ انہیں بنگلہ خالی کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ یہ غیر قانونی سرگرمیوں کا اڈہ نہ بنے۔‘
یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ’جسٹس فار مصطفیٰ‘ کے نام سے ٹرینڈ چل رہا ہے جس میں مقتول کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جامعہ کراچی کے شعبہ جُرمیات (کریمینولوجی) کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس کراچی کے تمام رہائشیوں کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ کیا بڑے اور بااثر خاندان قانون سے بالاتر ہیں؟ کیا سکیورٹی ادارے واقعی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ عامر کے اہلِ خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور پوری قوم کی نظریں اس کیس پر جمی ہوئی ہیں۔
’اگر قانون نے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیا تو شاید یہ کیس ایک مثال بن جائے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا نہیں تو بنگلہ نمبر 35 جیسے اور کئی پُرسرار ٹھکانوں پر غیرقانونی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور مصطفیٰ عامر جیسے کئی نوجوان اپنی جان گنواتے رہیں گے۔‘

 

شیئر: