سعودی عرب حالیہ برسوں میں تبدیلی کے سفر پر گامزن ہے۔ خاص طور پر جب بات خواتین کو بااختیار بنانے کی ہو تو تعلیم، کاروبار، افرادی قوّت اور سماجی زندگی میں انہیں وہ مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں جن کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کے کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (سی ایس ڈبلیو) کے اجلاس کے موقع پر، شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود نے صنفی مساوات کی جانب مملکت کی پیش رفت اور مستقبل کے لیے وژن کو سراہا۔
مزید پڑھیں
-
سماجی تبدیلی کے لیے آرٹ مرکزی کردار ادا کرتا ہے: سعودی شہزادیNode ID: 557746
-
شوریٰ کونسل میں سعودی خواتین کی شمولیت کا ذکر اقوام متحدہ میںNode ID: 887073
رواں سال اقوام متحدہ کے کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے 69 ویں اجلاس کی صدارت سعودی عرب نے کی۔
عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود نے سعودی خواتین کی نمایاں پیش رفت، درپیش چیلنجز اور ملک کے مستقبل کی تشکیل میں نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اب ہماری صلاحیتیں دکھانے کا وقت ہے۔‘
شہزادی لمیا نے کہا کہ اس وقت سعودی خواتین کو تعلیم، روزگار اور بااختیار بنانے کے لیے جو مواقع میسر ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔
’کیا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ سعودی خواتین کے لیے تمام دروازے کُھلے ہیں، جس طرح تعاون کیا جا رہا ہے، جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تعلیم، تربیت اور ملازمتوں کے جیسےمواقع فراہم کیے جا رہے ہیں، ہر وہ چیز جو ہو رہی ہے کیا آپ اس کا تصوّر کر سکتے ہیں؟’
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا وقت ہے۔ اب اس موقع کو گنوانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘

شہزادی لمیا کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے اجلاس میں ایک پینل کا حصّہ تھیں جس کا عنوان تھا: وژن سے حقیقت تک: سعودی عرب کی خواتین کو بااختیار بنانے کی کہانی۔‘
اس پلیٹ فارم سے مملکت کو گذشتہ دہائی کے دوران سعودی عرب میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کو سامنے لانے کا موقع ملا۔ ایک ایسا موقع جس کے بارے میں شہزادی لمیا نے کہا کہ ’یہ تاریخی ہے۔‘
’جو ہوا وہ تاریخی ہے۔ یہ نہ صرف سعودی خواتین کے لیے بلکہ پوری مملکت کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے جو صنفی مساوات کو آگے بڑھانے اور تمام شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ملک کے عزم کو اُجاگر کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب سی ایس ڈبلیو کی سربراہی کا حقدار تھا۔‘
شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود کے مطابق پینل میں بہت سی باصلاحیت خواتین کی موجودگی ان کی ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ ’یہ حیران کن تھا۔ یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ہم اپنا راستہ منتخب کرنے کے لیے آزاد ہیں۔‘
سعودی عرب کی جانب سے تیز ترین اقدامات کے باوجود انہوں نے اعتراف کیا کہ چیلنجز باقی ہیں۔ ’ایمانداری سے بتائیے، وہ ملک کہاں ہے جو 100 فیصد چیلنجز سے پاک ہے؟ ایسا کوئی نہیں ہے۔‘

شہزادی لمیا نے کہا کہ ’ہاں، ہم بہت تیز رہے ہیں، لیکن ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ اسی لیے ہم بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اسے برقرار رکھنا یہ سب سے اہم چیز ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یقینا، اب بھی چیلنجز ہیں۔ ہم 90 کی دہائی میں ایک نیا ملک تھے اور ہم نے یہ سب کچھ نو برسوں میں کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم (اتنے وقت میں) جہاں تک پہنچے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ خواتین کو بااختیار بنانے میں یورپ اور امریکہ کے ساتھ ایسا ہوا۔‘
شہزادی لمیا نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب اور دیگر خطوں کے درمیان فرق کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک مثال شیئر کی۔
انہوں نے کہا کہ ’بہت سے مغربی ممالک میں صنفی مساوات کے مسائل جیسے کہ خواتین کے لیے مساوی تنخواہ پر اب بھی سرکاری اداروں میں بحث ہو رہی ہے۔ تاہم، سعودی عرب میں غیر مساوی تنخواہ کے کسی بھی معاملے کو قانونی طریقۂ کار سے فوری طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔‘
شہزادی لمیا نے بتایا کہ ’سعودی عرب میں کوئی بھی سرکاری ادارہ، اگر میں یہ ثابت کر دوں کہ کوئی مرد مجھ سے ایک ریال زیادہ لے رہا ہے، تو میں فوری طور پر ان پر مقدمہ کر سکتی ہوں۔‘
شہزادی لمیا بنت ماجد آل سعود کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں کوئی بھی ملک اس تجربے سے نہیں گزار جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ آپ خواب جی رہے ہیں۔‘