یہ غالباً دو برس پہلے کا ایشیا کپ کا میچ تھا۔ رمیز راجہ اور ایک سابق انڈین کرکٹر کمنٹری کر رہے تھے۔ انڈین ٹیم میں ان کے ایک فاسٹ بولنگ آل راؤنڈر شردل ٹھاکر کی شمولیت کا مسئلہ تھا۔ ٹیم مینجمنٹ نے بیٹنگ کو مضبوط کرنے کی خاطر ایک سپیشلسٹ فاسٹ بولر کی جگہ ٹھاکر کو شامل کر لیا۔ رمیز راجہ نے اس پر ہلکی پھلکی تنقید کی تو ساتھی کمنٹیٹر نے لطیف انداز میں شردل ٹھاکر کا دفاع کرتے ہوئے مشہور انڈین فلم ’شعلے‘ کا کوئی مکالمہ دہرایا۔
جس نے وہ فلم دیکھی ہو، اسے معلوم ہے کہ اس میں گبر سنگھ ڈاکو اور ایک سابق پولیس افسر ٹھاکر بلدیو سنگھ کی لڑائی کا قصہ ہے۔ وہ کمنٹری سننے والے سب لوگوں کو اندازہ ہوا ہو گا کہ رمیز وہ ڈائیلاگ سنتے ہی پگھل گئے اور انہوں نے بے اختیار شعلے فلم کا نام لیا۔ ایک آدھ منٹ اس پر بات ہوئی اور پھر میچ کی صورت حال کے مطابق کمنٹری چلنے لگی۔
مزید پڑھیں
-
زندگی کے یہ رنگ بھی دیکھنے ہی پڑیں گے، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 882768
-
آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883698
-
آپ نے کبھی کیلنڈر سے وقت چرایا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 886998
میں بعد میں ’شعلے‘ فلم کے بارے میں سوچتا رہا۔ ’شعلے‘ اپنے عہد میں تو سپر ہٹ تھی ہی، اس کے بعد بھی سحر کم نہیں ہوا۔ یہ کم وبیش تین نسلیں دیکھ چکی ہے اور اس کے مکالمے آج بھی بہت مقبول ہیں۔ ولن گبر سنگھ کا مشہور قہقہہ اور اس کا سوالیہ مکالمہ، کتنے لوگ تھے سانبھا؟ بسنتی کے کردار میں ہیما مالنی کی دلکش پرفارمنس، دلچسپ کردار انگریز کے دور کا جیلر، پھر دو جگری دوستوں ویرو اور جے کی لافانی دوستی اور بھی نجانے کیا کیا کچھ اس میں سمویا ہوا ہے۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ کس طرح بعض چیزیں ہمارے دل میں یوں نقش ہو جاتی ہیں کہ ان سے ہم زندگی بھر نہیں نکل سکتے۔ کوئی ٹی وی ڈرامہ، فلم، ناول، کہانی، کہیں دیکھا اچھوتا منظر، انوکھا قصہ، موسیقی کی دھن، دلا آویز منظر، لطف و انبساط میں لپٹے بعض خاص لمحات، کوئی خاص کرکٹ یا فٹ بال یا کسی بھی کھیل کا میچ۔
یہ سب انفرادی طور پر تو دل خوش کن لمحات ہیں ہی، مگر تب اس کا مزا اور لطف بڑھ جاتا ہے جب اچانک پتہ چلے کہ یہ کسی اور کے بھی پسندیدہ ہیں۔ جب ہماری حسین، دل کش یادوں، ناسٹلجیا میں کوئی اور شریک ملے تب ایک نیا قسم کا باہمی تعلق، بانڈ سا محسوس ہوتا ہے۔
اس کی بہت سی مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ فنون لطیفہ خاص کر ڈرامہ، فلم کی بات پہلے کر لیتے ہیں۔ ’شعلے‘ کی میں نے مثال دی۔ اس سے پیچھے چلے جائیں گے تو دلیپ کمار کی لازوال اداکاری والی فلمیں مل جائیں گی، ’انداز‘، ’مغل اعظم‘، ’گنگا اور جمنا‘ وغیرہ۔ امیتابھ بچن کی بعض فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے لاکھوں، کروڑوں لوگوں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ ’زنجیر‘، ’شرابی‘، ’دیوار‘، ’سلسلے‘، ’شکتی‘ وغیرہ۔
شاہ رخ خان کی فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کو انڈیا تو کیا، پاکستان میں بھی دیکھنے والے بھی کروڑوں ہوں گے، ایسے بے شمار جنہوں نے اسے کئی بار دیکھا۔ اسی طرح، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’کبھی خوشی کبھی غم‘ وغیرہ۔

عامر خان کی ’لگان‘، ’تھری ایڈیٹس‘، ’پی کے‘ جبکہ سنجے دت کی ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ ایسی فلمیں ہیں جو بے تہاشا لوگوں نے دیکھیں اور جن کی ایک خاص قسم کی ریفرنس ویلیو بن چکی ہے۔ ہم بلا تکلف ان فلموں کا کوئی مکالمہ اپنی گفتگو میں استعمال کر دیتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ دوسرے اسے لازمی جانتے اور سمجھتے ہوں گے، جیسے جادو کی جپھی۔
یہ کتابوں کے معاملے میں بہت ہوتا ہے۔ سب رنگ ڈائجسٹ کا میں بڑا فین ہوں۔ زندگی کے تجربات سے پتہ چلا کہ سب رنگ پسند کرنے والے بہت سے ہیں اور ان میں کچھ نہ کچھ مشترک ہوتا ہے۔ جہاں کہیں کوئی سب رنگ فین ملے، اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا مجھے آسان لگتا ہے۔
یہ معاملہ سب رنگ کے مشہور سلسلہ وار ناول ’بازی گر‘ کے ساتھ مزید خاص ہو جاتا ہے۔ شکیل عادل زادہ کا یہ ناول ایک توشہ خاص ہے، خوش نصیبوں کو یہ پڑھنے کو ملا اور وہ اس کے قتیل ہوئے۔ نیوجرسی، امریکہ میں مقیم میرے پیارے دوست ڈاکٹر مجید کا یہ قول ہے کہ ’ایک سب رنگ کلب ہے اور اس کے اندر، بیک یارڈ میں کہیں پر بازی گر کیفے ہے، جس کی ممبر شپ مخصوص لوگوں کو ملا کرتی ہے۔ اس کے ممبر دنیا بھر میں جہاں بھی ہوں، ایک خاص تعلق، رشتے سے جڑے ہیں۔‘
اس فہرست کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ سے شوکت صدیقی کے شاہکار ’خدا کی بستی‘ اور ’جانگلوس‘ تک، بانو قدسیہ آپا کے ناول ’راجہ گدھ‘ سے تارڑ کے ناولوں، سفرناموں تک اور پھر شمس الرحمن فاروقی کے ’کئی چاند تھے سرِآسمان۔‘

ڈائجسٹوں کی بات ہوئی تھی تو سسپنس کے طویل ترین سلسلہ وار ناول ’دیوتا‘ کے مداح بھی کم نہیں، نواب محی الدین اس ناول کے مصنف تھے۔ میں ذاتی طور پر طاہر جاوید مغل کے ناول ’تاوان‘ کا شدید مداح ہوں۔ ’تاوان‘، ’دیوی‘، ’پرواز‘، ’انگارے‘ وغیرہ۔
میری پیدائش 1970 کے بعد کی ہے۔ میری نسل اور ظاہر ہے ہم سے 10، 15، 20 برس بڑی نسل کے پی ٹی وی ڈراموں کے ساتھ خاص مناسبت اور وابستگی تھی۔ بہت سے ایسے سپرسٹار ڈرامے تھے جنہوں نے ہماری زندگی میں بہت سے مسرت کے لمحات شامل کیے، ان کے ساتھ ہمارا ناسٹلجیا بھی منسلک ہے اور ان کے توسط سے کروڑوں دیگر لوگوں کے ساتھ بھی۔ کون ہے جس نے ’ففٹی ففٹی‘، ’الف نون‘، ’سونا چاندی‘، ’وارث‘ جیسے ڈرامے دیکھے ہوں اور انہیں بھلا سکا ہو؟ ان ڈراموں کے مکالمے، کرداروں کے حوالے اور علامتیں مجلسی گفتگو، تحریروں کا حصہ رہے اور ہم ان سے فوری ریلیٹ کر لیتے ہیں۔
حسینہ معین آپا کے ڈرامے ’ان کہی‘، ’تنہائیاں‘، ’دھوپ کنارے‘ وغیرہ۔ کامیڈی کرنے والوں کے مشہور تکیہ کلام۔ ’وارث‘ ڈرامے میں اصغر ندیم سید کا مکالمہ ’اساں بندے ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے‘ کسے بھول سکتا ہے۔ بہت کچھ اور بھی ایسا ہے جو یاداشتوں، سمجھ بوجھ، فہم اور ہمارے حسین لمحات کا لازمی حصہ ہے۔
یہ کھیلوں میں بھی ہے۔ جس کسی نے شارجہ میں جاوید میانداد کے چھکے والا میچ براہ راست دیکھا ہو، وہ اس جادوئی لمحے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔ مجھے بنگلور ٹیسٹ یاد ہے جب توصیف احمد کی گیند پر آخری انڈین بلے باز راجر بینی آ=ٹ ہوا اور پاکستانی ٹیم کے ساتھ پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔ 92 کے ورلڈ کپ کو کون بھول سکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ممتاز مورخ، محققہ ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنے انٹرویو میں مجھے بتایا کہ انہوں نے اس ورلڈ کپ کے میچز امریکہ میں راتوں کو جاگ جاگ کر دیکھے تھے۔ میں وسیم اکرم کی وہ دو گیندیں کبھی نہیں بھلا سکتا جس پر فائنل میں ایلن لیمب اور کرس لیوس بولڈ ہوئے۔ عاقب جاوید کا نیوزی لینڈ کے خلاف وہ سلو آف سپن گیند جس پر مارک گریٹ بیچ بولڈ ہوا۔
فٹ بال کے فین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں رونالڈو، میسی وغیرہ کے میچز اور یادگار گول یاد رکھتے ہیں۔ مجھے 86 کے ورلڈ کپ میں میرا ڈونا کے گول کبھی نہیں بھول سکے۔ میرے چھوٹے بیٹے 11 سالہ عبداللہ کا آل ٹائم فیورٹ رونالڈو ہے۔ وہ اس کے بائیسکل کک اور نجانے کون کون سے حیران کن گول یاد رکھتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ فیس بک کے سپورٹس گروپس اور پیجز پر میسی فینز اور رونالڈ فینز آپس میں نبردآزما رہتے ہیں۔ یہی لیور پول اور سٹی کے فینز کرتے ہیں۔ کبھی ریال میڈرڈ اور بارسلونا کی رقابت بہت مشہور تھی، آج بھی ہے، مگر رونالڈر، میسی کے چلے جانے سے ان کے پاکستانی فینز کچھ ٹھنڈے پڑ گئے۔ ٹینس میں راجر فیڈرز اور نڈال کے موازنے ہوتے تھے۔ ان کے فینز آپس میں جڑے رہتے اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو آل ٹائم گریٹ قرار دینے کے دلائل تراشتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی فلم مشہور نہیں ہوتی، مگر ایک خاص عمر، علاقہ، ماحول کے افراد یا کمیونٹی یا کسی خاندان کے لیے اس کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ والد کسی خاص فنکار کو پسند کرتا ہے یا کسی گائیگ کو سنتا ہے تو بچے بھی گھر میں وہ سننے کے عادی ہو جاتے ہیں، ازخود دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔

رمضان سے پہلے اگلے دن ہم میاں بیوی اکٹھے کچھ دیکھ رہے تھے، کہیں پر کسی ریل میں فلم کا ایک گیت آیا۔ اہلیہ کہنے لگیں کہ میں یہ فلم 15 20 بار دیکھ چکی ہوں اور ہمیشہ اگلی بار بھی دیکھنے کو تیار رہتی ہوں۔ میں حیران ہوا کیونکہ یہ انیل کپور کی ایک ڈیڈ فلاپ فلم ’لمحے‘ تھی جس نے بالکل ہی بزنس نہیں کیا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ فلم بھی کسی کو پسند ہو گی۔ خیر ہم نے (عجیب مضحکہ خیز لگتے) کلین شیو انیل کپور اور سری دیوی کا صحرا میں فلمایا ہوا ایک خوبصورت گیت سنا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کسی روز یہ فلم اکٹھے دیکھیں گے تاکہ ایک مشترک یاد پیدا ہو جائے۔
یہ سب باتیں کرنے کا مقصد ایک درد، قلق بیان کرنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں نے اس سب کچھ کو یکایک منقطع کر دیا ہے۔ پی ٹی وی زمانے کے اکٹھے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے کا معاملہ ختم ہوا تو ہر ایک کی اپنی پسند ناپسند جدا ہوتی گئی اور پھر بتدریج یہ ہوا کہ بہت سے مشترک نکات، رشتے، تعلق، ڈوریاں جو ایک پچھلی نسل کو اگلی نسل کے ساتھ جوڑ کر رکھتی تھی، وہ کمزور پڑتے گئے، تحلیل ہو گئے۔
اس میں کسی کا قصور نہیں۔ ایسا نہیں کہ نئی نسل نالائق، باغی یا بدتمیز ہو گئی ہے۔ نہیں ایسا نہیں۔ دراصل بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ ٹرینڈز بھی یوں بدل گئے ہیں کہ اب پچھلا بہت کچھ سرے سے غیرمتعلق لگنے لگا۔ بچوں کی اپنی پسند، اپنے بہت سے نئے معاملات آ گئے ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو ان سے نہیں جڑ سکتے۔ ہمارے زمانے میں بچے لڈو، کیرم بورڈ، شطرنج وغیرہ کھیلتے تھے جس میں بڑے بھی شامل ہو سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میری پھوپھی ہمارے گھر آتیں تو بچے ساتھ والی دکان سے لڈو لے آتے اور پھر بڑے چھوٹے مل کر کھیلا کرتے۔

آج کل تو ایسی نئی گیمز آ گئی ہیں کہ چاہنے کے باوجود ہم ان میں فٹ نہیں ہو سکتے۔ پب جی، فری فائر وغیرہ۔ میرا چھوٹا بیٹا روبلاکس شوق سے کھیلتا ہے اور مجھے اس کا سرے سے کوئی آئیڈیا ہی نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کے ساتھ کس موضوع پر بات کروں؟ آخر کار میں نے رونالڈو کے بارے میں معلومات جمع کیں اور اب فٹ بال پر گفتگو کرتے ہیں، اس کے فیورٹ کارٹون بھی دیکھنے لگا ہوں کہ کوئی مشترک دھاگے تو بُن لیے جائیں۔
سوال یہی ہے میرے لیے، شائد آپ کے اور شائد ہم سب کے لیے کہ ہم میں اور ہماری نئی نسل میں کیا مشترک ہے؟ ہم نے اس کے لیے کیا کیا اور کیا کرنا چاہتے ہیں؟
سوال تو شاید یہ بھی ہے کہ کیا ہماری نسل وہ پچھڑی ہوئی نسل ہے جو اپنے ماضی سے تو جڑی ہوئی ہے، جس کا مستقبل اس سے الگ ہے؟ اس پر ان شااللہ کبھی الگ سے۔