Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ نے کبھی کیلنڈر سے وقت چرایا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

کچھ خوش بخت ایسے بھی ہیں جو اپنے کیلنڈر سے چند دن چرا کر اپنے ساتھ گزارتے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)
یہ چند سال پہلے کی بات ہے، صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے بہت ہی ٹف شیڈول چل رہا تھا۔ جس اخبار میں کام کرتا تھا، وہاں میگزین کی ذمہ داریوں کے ساتھ ہفتے میں تین کالم بھی لکھ رہا تھا۔
اپنے اوپر خود یہ لازم کر لیا تھا کہ نئے موضوعات پر ریسرچ کرکے لکھنا ہے، عالمی امور میں دلچسپی پیدا ہوچکی تھی، عسکریت پسندی پر بھی لکھ رہا تھا اور ریجنل ایشوز بھی زیرِ بحث آ جاتے تھے۔
یہ سب ٹاسک زیادہ وقت مانگ رہے تھے۔ بہت کچھ پڑھنا پڑ رہا تھا۔ روزانہ دفتر میں دو تین گھنٹے اضافی بیٹھتا، باہر کے اخبارات کے آرٹیکلز کا پرنٹ آؤٹ نکال کر گھر لے جاتا۔ ایک انبار ہوتا جسے رات کو اور پھر صبح اٹھ کر پڑھنا پڑتا۔ دیگر نجی مصروفیت بھی چل رہی تھیں۔ بس یوں سمجھیے کہ میکانکی زندگی ہو چکی تھی۔ روبوٹ کی طرح بھاگ بھاگ کر ہر ڈیڈ لائن کو پورا کرنا۔ اس پورے عمل میں ذہن بلینک سا ہوتا۔
(یہ جو میں نے اوپر لکھا، یہ کوئی نیا یا اجنبی تصور نہیں، ہر کوئی اسے جان اور سمجھ سکتا ہے کیونکہ ہم میں سے بیشتر کی زندگیاں ایسے ہی گزر رہی ہیں، بھاگم بھاگ۔ البتہ اب سوشل میڈیا کا اضافہ ہو گیا ہے، جن دنوں کا واقعہ سنا رہا ہوں تب سوشل میڈیا کا رجحان تھا، مگر قدرے کم۔)
خیر ان دنوں اس تیز رفتار شیڈول میں ایک مسئلہ اور یہ پیدا ہوجاتا کہ قارئین میں سے کوئی ملنے کی خواہش کرتا۔ وہ بے چارے اپنی محبت میں ہم سے ملنے آتے، مگر ادھر ہم اتنے پھنسے ہوتے کہ ایک گھنٹہ نکالنا مشکل تھا۔
میں تب جس مکان میں رہ رہا تھا، اس میں ایک چھوٹا سا لان بھی تھا۔ وہ گھر ویسے اسی لان کی وجہ سے کرائے پر پسند کیا تھا۔ تب سوچا تھا کہ لان کا مزا لیا کروں گا۔ سردیوں کی دھوپ میں، گرمیوں میں کِھلتی شام، برسات میں کسی بھیگے دن کا مزا وہاں بیٹھ کر لیں گے۔ یہ صرف سوچ ہی رہی، ایسا کبھی کیا نہیں تھا۔
ایک دن میں حسب معمول افراتفری میں کمرے سے باہر آیا۔ کئی چیزیں ذہن میں گھوم رہی تھیں، کسی سے ملاقات تھی، ایک دو ایشوز پر ریسرچ چل رہی تھی، شاید کچھ لکھنا بھی تھا۔ سر میں درد ہورہا تھا اور بدن تھکن سے ٹوٹ رہا تھا، مگر جیسے تیسے خود کو سنبھال کر اٹھایا اور دفتر کے لیے باہر آیا۔ لان کے ساتھ پورچ تھا جہاں رواج کے مطابق دو تین کرسیاں بھی سائیڈ میں رکھی تھیں اور ایک فولڈنگ چارپائی بھی دھری تھی۔

 کلینڈر سے وقت چرا کر اپنے آپ کے ساتھ بتانا چاہیے۔ (فوٹو: فیس بک)

اس دن موسم خوشگوار تھا، آسمان پر بادل چھائے تھے، خوشگوار ہلکی ہوا چل رہی تھی، یہی بہار کے دن تھے۔ لان کہیں یا باغیچہ، اس میں پھول بھی کھلے تھے، دیوار پر چڑھی بیل پر خوشنما پھول نظروں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔
چند لمحے وہیں کھڑے ہو کر حسرت بھری نظروں سے یہ سب دیکھا، پھر قدم گیٹ کی طرف بڑھائے۔ یکایک کیا ہوا کہ ارادہ ہی بدل گیا۔ ایک خیال کوندے کی طرح ذہن میں لپکا تھا اور وہ ایسا طاقتور کہ دن بھر کے منصوبوں، شیڈول کی فصیل فوری ڈھے گئی۔ میں نے فولڈنگ چارپائی اٹھائی اور لان میں بچھا کر تکیے کے بغیر ہی لیٹ گیا، سر کے نیچے بازو رکھ لیا۔ آنکھیں بند کر لیں اور موسم کی خوشگواری، خنکی محسوس کرنے لگا۔
پہلے چند لمحے تک تو کچھ پتہ نہیں چلا، پھر اچانک ہی جیسے لگا کسی اور دنیا میں چلا گیا ہوں۔ بچوں کے مشہور ناول اور اس پر بنی فلم نارنیہ(Narnia)  کے کرداروں کی طرح پراسرار الماری کے اندر موجود راستے سے کسی قدیم دنیا میں پہنچ جانے جیسا۔
جسم کو چھونے والی ہوا کے لمس سے گویا جسم و جاں میں سکون سا سرائیت کر رہا تھا۔ گلی میں خاموشی تھی تو پہلے مکمل سکوت کی کیفیت لگی۔ پھر احساس ہوا کہ نہیں اس فضا کی بھی اپنی آواز ہے، دھیمے سروں میں گنگناتی سی آواز۔ ان پھولوں ، پودوں اور نیچے بچھی لش گرین گھاس کی اپنی مہک ہے۔ پھر یوں لگا جیسے یہ کوئی ایک نہیں بلکہ کئی مختلف قسم کی خوشبوئیں اور آوازیں ہیں۔ پتوں کی سرسراہٹ، لان میں لگے جامن کے درخت پر بیٹھی چڑیوں کی چہچاہٹ، بادلوں کی وجہ سے ہوا میں موجود نمی جو چہرے، گردن اور ہاتھ پاؤں کو گویا چھو رہی تھی۔
چند منٹوں کے بعد محسوس ہوا جیسے جسم سے کوئی نادیدہ بوجھ الگ ہو رہا ہے۔ سر میں درد کم ہوتا گیا، تناؤ سے کھنچے ہوئے گردن اور شانوں کے مسلز ریلیکس ہونے لگے۔ کچھ دیر کے لیے شاید آنکھ لگ گئی یا ویسے ہی سب منظر دھندلا گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر اسی کیفیت میں رہنے کے بعد اٹھا۔ پوری جسمانی حالت بدل چکی تھی۔ ذہن بھی ریلیکس اور جسم بھی تازہ دم لگنے لگا۔
اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ جو یوگا کی مشقیں ہیں، مائنڈ فل نیس کی ذہنی ایکسرسائز اور دانا لوگ فطرت کے قریب رہنے کے مشورے دیتے ہیں، وہ کس قدر مفید، کارگر اور موثر ہوں گے۔ مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ آپ اپنی زندگی ایک ڈسپلن اور ہارڈ ورک کے تحت ضرور گزاریں، مگر کبھی کبھی اپنی بھاگتی دوڑتی زندگی، اپنے سخت اور نہایت مصروف شیڈول سے، اپنی زندگی کے کیلنڈر سے زیادہ نہیں تو صرف ایک گھنٹہ نکال کر اپنے ساتھ گزاریں۔

پُر فضا مقامات کی سیر سے انسان کو تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کوشش کریں کہ یہ اچانک اور پہلے سے طے شدہ نہ ہو۔ یہ سرپرائز جو آپ اپنے جسم اور ذہن کو دیں گے، ممکن ہے وہ آپ کی روح کو بھی سرشار کر دے اورپھر ایسا کرتے رہنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔
میں نے سنا ہے کہ ایسے خوش بخت بھی ہیں جو اپنے کیلنڈر سے صرف ایک گھنٹہ نہیں بلکہ ایک دن یا چند دن چرا کر اپنے ساتھ گزارتے ہیں۔ کسی پہاڑی علاقہ میں چلے جاتے ہیں، کوئی ٹریک سر کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی پُرسکون جگہ پر جا کر زندگی کے دھیمے سروں میں وقت بِتاتے ہیں۔ مجھے ان پر رشک آتا ہے کیونکہ میں تو ایک گھنٹہ چرانے کی عیاشی بھی کبھی کبھار ہی کر پاتا ہوں۔
امیر العظیم معروف سیاسی رہنما اور متحرک سماجی شخصیت ہیں۔ ’ایک بار وہ بتانے لگے کہ میرے ایک دوست کا معمول ہے کہ سال میں ایک آدھ بار وہ کہتا ہے میں مرنے کی پریکٹس کرنے لگا ہوں۔ اس کے بعد وہ اپنے گھروالوں، اپنی اولاد کو سب کچھ سونپ کر چند دنوں کے لیے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اپنی اہلیہ کو چپکے سے بتا دیتے ہیں کہ کہاں جا رہا ہوں اور انتہائی ایمرجنسی کے بغیر رابطہ کی کوئی کوشش نہیں کرنی۔ اس کے بعد وہ اپنا موبائل فون، انٹرنیٹ غرض ہر قسم کے رابطے کو منقطع کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے حساب سے یہ چند دن گزارتے ہیں، خاموشی، لو پروفائل میں، غیر معروف جگہوں پر گھومتے پھرتے یا کچھ اور۔ گھر والوں اور دوست احباب، کاروبار وغیرہ سے ان کا تعلق ان چند دنوں کے لیے بالکل منقطع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ واپس آ کر روٹین کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا یہ ہے کہ اس سے ایک تو بندے کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کوئی اتنا بھی ناگزیر نہیں۔ اس کے بغیر دنیا کے سب کام چل رہے ہیں۔ دفتر بھی چل رہا، گھر والے بھی جی رہے ہیں، دوست احباب بھی اور اگر چند دن فیس بک، واٹس ایپ سے ناغہ کر لیا تو وہاں معمولی سا فرق بھی نہیں پڑا۔ اس سے بہت سی خوش فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد، زیادہ بامعنی بنا لیتا ہے۔ اس کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ وہ اسے دنیا سے چلے جانے کی ریہرسل کا نام دیتے ہیں۔
مجھے تو یہ بھی کلینڈر سے وقت چرانے کا ایک طریقہ لگتا ہے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے، اپنے مطابق ایسا کر سکتا ہے۔ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اور ہاں اوپر بتایا گیا فارمولا ان کے لیے ہے جو مصروف اور بامقصد زندگی گزار رہے ہیں۔
جو لوگ ویلے پھر رہے، دن بھر پڑے کھاٹ توڑتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ پہلے اپنا کیلنڈر تو بنا لیں۔ کچھ کام وام کریں تاکہ ان کی مصروفیت تو شروع ہو۔ اپنے آپ کو کام میں لگائیں۔ کچھ کرنے کے بارے میں سوچیں اور پھر عمل کر گزریں۔ تب زندگی زیادہ خوشگوار اور مفید ہو جائے گی۔

شیئر: