پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حملے کو انڈیا کی دہشت گرد ذہنیت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 26 مسافر جان سے گئے جن میں سے 18 کا تعلق فوج اور ایف سی سے ہے۔
جمعے کو اسلام آباد میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے جعفر ایکسپریس واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بلوچستان میں اور اس سے پہلے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا مرکزی سپانسر مشرقی ہمسایہ ہے۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ انڈیا کی دہشت گرد پالیسی کا تسلسل ہے۔‘
انہوں نے گرفتار انڈین جاسوس کلبھوشن یادو کا ویڈیو کلپ چلایا جس میں وہ بتا رہا تھا کہ انڈین خفیہ ایجنسی را کا مقصد بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تھا۔
مزید پڑھیں
اس کے علاوہ سابق انڈین آرمی چیف کا کلپ بھی چلایا گیا جس میں وہ کہہ رہے تھے پاکستان میں بدامنی کے لیے علیحدگی پسند گروپوں کی مدد کرنی چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’جب دہشت گردوں نے بلوچستان کے دشوار گزار علاقے میں ٹرین پر حملہ کیا، اسی وقت انڈین میڈیا نے اس کے حق میں رپورٹنگ شروع کر دی تھی۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’انڈین میڈیا نے اے آئی فوٹیجز استعمال کر کے اس واقعے کو گلوریفائی کیا۔ انڈین میڈیا نے سوشل میڈیا سے پرانی ویڈیوز اٹھا کر اور دہشت گرد گروپ کی تیار کردہ فوٹیجز نشر کیں،‘
امریکہ میں بھی لوگ لاپتا ہوتے ہیں: سرفراز بگٹی
لاپتا افراد کے بارے میں ایک سوال پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایک شخص بھی لاپتا ہو لیکن جبری گمشدگی یا خود لاپتا ہونے میں بہت فرق ہے۔ اسے پاکستان کی ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
’اگر آپ ریجن میں دیکھیں یا دنیا میں دیکھیں تو کیا صرف پاکستان میں مسنگ پرسن ہوتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور برطانیہ میں مسنگ پرسن ہوتے ہیں، دیکھیں وہاں کی ان کی تعداد کتنی ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں لوگ لاپتا ہیں لیکن بلوچستان میں اسے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

’نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر عمل ہوگا تو دہشت گردی ختم ہوگی‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ سب سٹیک ہولڈرز نے مل کر کام کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل ہوگا تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے گا۔‘
’ یہ ناراض بلوچ نہیں دہشت گرد ہیں‘
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’بلوچستان کی ترقی کے لیے سیاسی بات چیت کی ضرورت ہے جس کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ لیکن جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے ان کے ساتھ اسی طریقے سے نمٹا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو گمراہ لوگ ہیں وہ یہ تحریک نہیں چھوڑیں گے چاہے آپ بلوچستان میں جتنی بھی ترقی کر لیں۔ دہشت گردی کو میڈیا نے ناراض بلوچ کا نام دیا، یہ کون سی ناراضی ہے کہ بجلی نہیں ہوگی تو پہاڑ پر چڑھ جائیں۔ ایسے لوگوں کو دہشت گرد ہی کہا جائے گا۔ یہ ناراض بلوچ نہیں دہشت گرد ہیں۔‘
انڈیا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی انڈین خفیہ ایجنسی را ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے درمیان اختلافات تھے لیکن را نے انہیں اکٹھا کیا۔ یہ ناراض بلوچ نہیں دہشت گرد ہیں۔‘
بریفنگ کے دوران سلائیڈز اور فوٹیجز بھی چلائی گئیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی۔ انہوں نے مسافروں کو نسلی بنیاد پر الگ الگ کیا۔ ان دہشت گردوں کا اسلام یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بعض مسافروں کو چھوڑ کر یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہم بہت انسانیت دوست ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’حملے کے دوران دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں تھے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’فوج کی ضرار کمپنی نے پہلے خودکش بمباروں کو نشانہ بنایا۔ ضرار نے سب سے پہلے انجن کلیئرنس شروع کی۔ اس آپریشن کے دوران کسی شہری کی موت نہیں ہوئی، تمام اموات آپریشن سے پہلے ہوئیں۔‘
اس موقعے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’ان دہشت گردوں نے تمام بلوچ روایات کو پامال کیا ہے۔ ان دہشت گردوں کو بلوچ نہ کہا جائے۔ انہوں نے جو کیا ایسے کام خوارج کرتے ہیں۔‘
’اس تحریک کا بلوچستان کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی اور تشدد سے ملک توڑنا چاہتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ انہیں دہشت گردوں ہی کی طرح ٹریٹ کیا جائے گا۔‘