Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی مہم جو کا سعودی عرب میں شمال سے جنوب تک سفر

سعودی عرب میں بسنے والے دنیا کے سب سے زیادہ مہمان نواز لوگ ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
برطانوی مہم جو اور مؤرخ ایلس موریسن سعودی عرب میں شمال سے جنوب تک 2500 کلومیٹر طویل پیدل سفر کے مشن پر ہیں اور حال ہی میں پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 61 سالہ ایلس موریسن نے پیدل چل کر مملکت کے حیرت انگیز مناظر دریافت کئے ہیں اور مملکت کی قدیم تاریخ اور بھرپور ثقافتی سرگرمیوں کو اجاگر کیا۔
برطانوی ٹی وی میزبان اور مصنفہ پہلی خاتون ہیں جو مراکش کا دریائے درعا پیدل عبور کیا۔ وہ قاہرہ سے کیپ ٹاؤن تک کا سفرکر چکی ہیں، ماؤنٹ ایورسٹ کے گرد چکر لگا چکی ہیں اور اردن بھی پیدل عبور کر چکی ہیں۔
ایڈنبرا سے تعلق رکھنے والی ایلس موریسن اپنی مہمات کو کتابوں، ڈاکیومینٹریز، پوڈکاسٹ اور اب بی بی سی کے ایک شو کے لیے دستاویزی شکل دے رہی ہیں۔
ایلس موریسن نے اپنے 2500 کلومیٹر طویل سفر کا پہلا مرحلہ 14 فروری کو پُراعتمار طریقے سے مکمل کرنے کے بعد عرب نیوز کو خصوصی انٹرویو میں اپنے حالیہ سفر کے بارے میں بات کی ہے۔
برطانوی خاتون نے بتایا ’ میری یہ مہم دو مراحل پر مشتمل ہے اور اس کے لیے میں نے تقریباً پانچ ماہ کا عرصہ متعین کیا ہے۔‘

ریت کے طوفان میں گائیڈ کے حوصلے سے پہلا مرحلہ مکمل کیا۔ فوٹو عرب نیوز

موریسن نے اپنے اونٹوں جوسی اور لولو کے علاوہ مقامی گائیڈز کے ساتھ اپنی مہم کا پہلا مرحلہ یکم جنوری کو شروع کیا جس میں روزانہ اوسطاً 23 کلومیٹر تقریبا 33000 قدم چلتے ہوئے930 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔
موریسن اپنےخواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پُرعزم تھیں اور کئی دہائیوں سے اس سفر کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
مہم کا دوسرا مرحلہ اکتوبر میں مدینہ منورہ سے شروع ہوگا اور دسمبر 2025 میں نجران کے راستے یمن کی سرحد کے قریب مکمل ہوگا۔
موریسن نے بتایا گیارہ سال کی عمر میں میرے والد نے ایک انگریز کے عرب بدوؤں کے ساتھ ربع الخالی عبور کرنے کے بارے میں ولفریڈ تھیسجر کی کتاب Arabian Sands  مجھے دی جس نے میری سوچ پر گہرا اثر ڈالا۔

دوسرے مرحلے میں تقریباً 70 دن سفر کا آغاز اکتوبر سے ہو گا۔ فوٹو عرب نیوز

مملکت میں سیاحت کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے اقدام کے بعد اپنے اس مشن کی منصوبہ بندی کی اور اس تاریخی سفر سے پہلے عربی زبان سیکھی۔
سفر کی ابتداء میں ہچکچاہٹ تھی، نیا ملک تھا، لگتا تھا یہاں کے لوگ سخت اور سنجیدہ ہوں گے لیکن حقیقت میں سعودی عرب میں بسنے والے دنیا کے سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں جو ہنسنا، مذاق کرنا اور زندگی سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں ماہ رمضان اور بعد کے مہینوں میں پڑنے والی شدید گرمی کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں تقریباً 70 دن کے سفر کا آغاز اکتوبر سے ہو گا اور دوسرے مرحلے کے لیے  مہم جو کے پاؤں کو کچھ آرام کی ضرورت ہے۔

خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دہائیوں سے اس سفر کی منصوبہ بندی کی۔ فوٹو ایکس

موریسن نے بتایا’ العلاء کا سفر میرے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے، ممتاز سعودی ماہر آثار قدیمہ وسام خلیل سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع  ملا، وادی الدیسہ میں سعودی عرب کی پہلی خواتین وائلڈ لائف رینجرز کے ساتھ سفر کا تجربہ ہوا اور شرعان نیچر ریزرو میں  نایاب عرب اوریکس دیکھنے کا ناقابل یقین لمحہ میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔
آخر میں برطانوی مہم جو نے بتایا ’میرے پاؤں میں شدید چھالے پڑ گئے اور قدرے تکلیف سے گزرنا پڑا لیکن میں چلتی رہی۔
ہم نے ریت کے خوفناک طوفان کا سامنا کیا جس  نے جلد کو جھلسا دیا، اونٹ گم گئے اور لولو زخمی ہوگئی،جس نے قدرے مایوس کیا لیکن میرے گائیڈ نے حوصلہ دیا اور ہم نے سفر کا پہلا مرحلہ مکمل کیا۔
بھرپور مہمان نوازی پر موریسن نے بتایا ’مقامی باشندے ہمارے سفر میں دلچسپی رکھتے تھے، میزبانی کے لیے خوش آمدید کہا ، کئی بھیڑیں ذبح کیں ، میں ان تمام مہربان افراد کی مشکور ہوں۔
 

 

شیئر: