پاکستان میں توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق اکثر تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں ہی 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم اب وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے حوالے سے نئے ضوابط تیار کیے ہیں جن میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ بیرون ملک دورے پر جانے والے سربراہان مملکت یا اداروں کے سربراہ تحائف وصول ہی نہ کریں۔
ان نئے رولز کی وفاقی کابینہ سے منظوری کی صورت میں بیرون ملک پاکستانی سفارت کاروں کو آگاہ کیا جائے گا کہ وہ جس ملک میں تعینات ہیں، وہاں اس ضابطے پر عمل درآمد کو ممکن بنائیں۔
مزید پڑھیں
-
توشہ خانے سے سابق وزراء اعظم نے کون سے تحائف کتنے میں خریدے؟Node ID: 663331
-
توشہ خانے سے کون کیا لے کر گیا؟، تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی گئیںNode ID: 749931
اسی بارے میں سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل نے پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اپنی بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ توشہ خانہ کے موجودہ رولز کے تحت بیرون ممالک دوروں کے دوران تحائف وصول کیے جاتے ہیں تاہم اب ایک نئی جامع پالیسی تیار کر رہے ہیں جس میں ان دوروں کے دوران تحائف وصول نہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
اُنہوں نے اس کے پس منظر میں بتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں توشہ خانہ کے حوالے سے مختلف پالیسیز رائج ہیں۔
’مشرق وسطیٰ کے ممالک میں توشہ خانہ کا قانون لبرل ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں ایک حد مقرر کی گئی ہے جس سے زائد مالیت کا تحفہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے تحائف کی وصولی سے انکار یا پابندی سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ حکومت کو اس کے برعکس توشہ خانہ میں تحائف جمع کروانے اور خریدنے کے نظام کو شفاف بنانا چاہیے۔
تجزیہ کار ماجد نظامی نے توشہ خانہ کے نئے رولز کے معاملے پر اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا ہے کہ سربراہان مملکت اور سفارتی ملاقاتوں میں تحائف کا تبادلہ معمول کی بات ہے اور یہ روایت دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’تنازعات سے بچنے کے لیے ایسے رولز کے تحت تحائف پر پابندی عائد کرنا کوئی حل نہیں ہے بلکہ توشہ خانہ میں تحائف جمع کروانے اور پھر وہاں سے لینے کے نظام کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔‘

ماجد نظامی کے مطابق ’سربراہ مملکت کو مملکت کا سربراہ ہونے کے ناطے سے ہی کوئی تحفہ ملتا ہے نہ کہ اُس کی شخصیت کی وجہ سے۔ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف ریاست کی نمائندگی کرنے پر ملتے ہیں۔‘
اُنہوں نے توشہ خانہ کے نظام میں شفافیت لانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے تحائف کی قیمت مقرر کرنے کے معاملے پر واضح اصول ہونے چاہیے اور تحفے کی مالیت اُس کے حساب سے ہی طے ہونی چاہیے۔
’تحفے لینے یا دینے میں کوئی قباحت نہیں، حکومت کو تحائف کی وصولی اور پھر توشہ خانہ سے خریداری کے معاملے پر واضح رولز بنا کر ابہام کو ختم کرنا چاہیے۔‘
کابینہ ڈویژن اور توشہ خانہ سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار رانا غلام قادر کے مطابق توشہ خانہ کے رولز پر تنازعات نے اُس وقت جنم لیا جب ماضی میں سربراہان ممکت کو اجازت دی گئی کہ وہ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی قیمت کا کچھ حصہ ادا کر کے تحائف اپنے پاس رکھ لیں اور وہ کم مالیت والے تحائف کو بلامعاوضہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس سہولت سے تمام حکومتی شخصیات نےفائدہ اٹھایا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے توشہ خان کے رولز کو کسی حد تک سخت بنایا اور حکومتی شخصیات کو مخصوص مالیت سے زائد یعنی مہنگے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروانے کا پابند بنایا اور کم مالیت والے تحائف کی مقررہ قیمت ادا کرنے کے بعد اُنہیں اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی گئی۔

رانا غلام قادر نے بھی سربراہان مملکت کی جانب سے تحائف کو وصول نہ کرنے کی تجویز کو سفارتی اداب کے خلاف قرار دیا ہے۔
اُنہوں نے اپنی دلیل میں بتایا کہ ہمارے ملک کے سربراہان ہی بیرون ممالک جا کر تحائف وصول نہیں کرتے بلکہ ہم بھی پاکستان آنے والے مہمانوں کو تحائف پیش کرتے ہیں۔‘
’نئے رولز کے تحت اس سلسلے کو بند کرنے کی بجائے وصول کیے ہوئے تحائف کو شفاف انداز میں توشہ خانہ میں جمع کروانا چاہیے۔‘
اُنہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ ’حکومت توشہ خانہ کے تحائف کی بولی لگوا کر حاصل ہونے والی رقم کو خزانے میں جمع کروائے اور پھر اسی خزانے سے رقم استعمال کرتے ہوئے پاکستان آنے والے مہمانوں کو تحائف پیش کیے جائیں۔‘