توشہ خانے سے سابق وزراء اعظم نے کون سے تحائف کتنے میں خریدے؟
توشہ خانے سے سابق وزراء اعظم نے کون سے تحائف کتنے میں خریدے؟
جمعہ 22 اپریل 2022 5:39
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں صدر، وزیراعظم اور اعلیٰ حکام کو غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف کو ’توشہ خانہ‘ میں رکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک عمران خان)
سابق وزیراعظم عمران خان ان دنوں بیرون ملک سے ملنے والے قیمتی تحائف کم قیمت پر خرید کر مارکیٹ میں بیچ دینے کے حوالے سے حکومت کی شدید تنقید کی زد میں ہیں تاہم وہ پہلے وزیراعظم نہیں جنہوں نے سرکاری توشہ خانے سے تحائف خریدے ہوں۔
اس وقت دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نیب میں توشہ خانہ ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں۔
آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ کس کس سابق وزیراعظم نے توشہ خانے سے کون کون سے تحائف خریدے۔
توشہ خانہ کیا ہوتا ہے؟
مختلف ممالک کے بادشاہوں اور وزیروں کے درمیان تحائف کے تبادلے کی روایت صدیوں پرانی ہے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں سفارتی روایات کے طور پر زندہ ہے۔
پاکستان میں صدر، وزیراعظم اور اعلیٰ حکومتی حکام کو غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف کو سرکاری ’توشہ خانہ‘ میں رکھا جاتا ہے۔
’توشہ خانہ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے. ریختہ ڈکشنری کے مطابق اس کے معنی ہیں ’وہ مکان جہاں امیروں کے لباس، پوشاک اور زیورات وغیرہ جمع رہتے ہیں۔‘
پاکستان میں صدر مملکت، وزیراعظم، وزرا، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلی، ججز، سرکاری افسران اور حتٰی کہ سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والے عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ کے ضابطہ کار 2018 کے تحت کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا ضروری ہیں۔
جس کے بعد یا تو انہیں موجودہ قانون کے تحت نصف قیمت پر خریدا جا سکتا ہے یا پھر انہیں سرکاری طور پر نیلام کر دیا جاتا ہے۔ تاہم نصف قیمت پر تحائف خریدنے کا قانون دسمبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے متعارف کروایا تھا ۔ تاہم اس قانون سے قبل وزیراعظم عمران خان خود بھی دس کروڑ سے زائد کے قیمتی تحائف صرف 20 فیصد سے کم قیمت پر خرید چکے تھے۔
عمران خان نے کونسے تحائف کتنے میں لیے
پاکستان کی کابینہ ڈویژن کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے جانے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے اگست 2018 سے دسمبر 2021 تک توشہ خانے سے 58 سے زائد تحائف خریدے یا قانون کے مطابق 30 ہزار سے کم مالیت کے تمام تحائف مفت میں رکھ لیے۔
خریدے جانے والے تحائف کی قیمت سرکاری حکام کی طرف سے 14 کروڑ 20 لاکھ لگائی گئی۔ وزیراعظم نے اس کے عوض تین کروڑ 81 لاکھ ادا کیے۔ انہوں نے آٹھ لاکھ کے مفت تحائف بھی رکھ لیے۔
قانون کے مطابق 30 ہزار سے کم مالیت کا تحفہ مفت میں لیا جا سکتا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی اور ان کی اہلیہ کو اسی مدت میں کل 92 تحائف ملے جن کی قیمت 45 لاکھ 47 ہزار لگائی گئی۔ صدر مملکت قومی خزانے میں 14 لاکھ 92 ہزار دے کر وہ تحائف گھر لے گئے۔
صدر مملکت نے بھی نو لاکھ روپے کے مفت تحائف لیے ہیں۔
عمران خان نے جو تحائف بلامعاوضہ رکھ لیے ان میں 30 ہزار کا ٹیبل میٹ، 20 ہزار ڈیکوریشن پیس، 20 ہزار کا لاکٹ، 25 ہزار کا مکہ کلاک ٹاور کا ماڈل، نو ہزارکا ڈیکوریشن پیس، آٹھ ہزار کی وال ہینگنگ شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے خریدے گئے مہنگے تحائف میں ایک آٹھ کروڑ 50 لاکھ کی گریف گھڑی شامل ہے جو انہوں نے صرف ایک کروڑ ستر لاکھ روپے خزانے میں جمع کروا کر لے لی۔
اسی طرح انہوں نے گھڑی سمیت چار تحائف لیے جن کی مجموعی قیمت کا سرکاری تخمینہ 10 کروڑ نو لاکھ روپے بنتا ہے تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اس قیمت کا صرف 20 فیصد یعنی دو کروڑ دو لاکھ روپے دے کر خرید لیا۔
ان تحائف میں 56 لاکھ کے کف لنکس، 15 لاکھ کا ایک پین اور 87 لاکھ 50 ہزار کی انگوٹھی شامل ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک 38 لاکھ کی رولیکس گھڑی سات لاکھ 54 ہزار میں خریدی۔
اگست میں حکومت سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر اندر دسمبر 2018 تک وزیراعظم دس کروڑ سے زائد مالیت کے تحائف 20 فیصد ادائیگی پر خرید چکے تھے۔ اس کے بعد قانون تبدیل کرکے تحفے کی لگائی گئی قیمت کا 50 فیصد ادا کرنا ضروری قرار دے دیا گیا تاہم اس نئے قانون کے بعد وزیراعظم نے صرف چار کروڑ کے تحائف خریدے۔ اس طرح متعدد اور گھڑیوں اور تحائف سمیت کل 14 کروڑ سے زائد مالیت کے تحائف وزیراعظم نے تین کروڑ 81 لاکھ روپے میں خریدے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ بعد میں یہی تحائف دبئی میں بیچ دیے گئے۔
اس حوالے سے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’عمران خان کو توشہ خانہ کی خریدی اور بیچی جانے والی چیزوں کی رسیدیں دینا پڑیں گی۔‘ مریم اورنگزیب نے سابق وزیراعظم عمران خان پر الزام لگایا کہ ’انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا نہیں کمایا جتنا توشہ خانہ سے کمایا ہے۔‘
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’صرف گھڑی کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ اس کو 18 کروڑ میں فروخت کیا گیا۔‘ان کے بقول ’تحائف کو بازار میں بیچا نہیں جا سکتا۔‘
تاہم وزیراعظم عمران خان نے ان تحائف کو خریدنے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ قواعد کے مطابق ادائیگی کرکے سرکاری تحائف لیے۔
’میرے تحائف میری مرضی میں ان کے ساتھ جو بھی کروں‘
انہوں نے اس سلسلے میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو ڈی ایچ اے میں ملنے والے پلاٹس کی مثال دی اور کہا کہ افسران وہ پلاٹ لے کر انہیں بیچ بھی سکتے ہیں اور جو چاہے اس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
سابق وزراء اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیس
اس وقت احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف زرداری کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس زیرسماعت ہے۔ اس کیس میں گزشتہ سال مئی میں احتساب عدالت نے پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے جبکہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کئی بار طلب کیا گیا ہے۔
توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان کے سرکاری توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے جب کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گاڑیاں دینے کے الزام میں طلب کیا تھا۔
نیب نے عدالت کو بتایا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں حاصل کیں۔
یہ گاڑیاں غیر ملکی سربراہان مملکت یا رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کو تحفے میں دی گئی تھیں مگر قانون کے تحت یہ گاڑیاں پاکستان کے سرکاری توشہ خانہ یا گفٹ سنٹر میں جمع کروانی ہوتی ہیں۔
نیب کے مطابق سنہ 2008 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے صرف 15 فیصد رقم کی ادائیگی کرکے یہ گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف کو دینے کی منظوری دی۔
نیب ذرائع کے مطابق ان نئے ماڈلز کی تین گاڑیوں کی اصل قیمت چھ کروڑ تھی۔ تاہم ابتدائی طور پر صرف نوے لاکھ کی ادئیگی کی گئی جبکہ ایکسائز آفس کے اعتراض پر مزید رقم جمع کروائی گئی اور یوں تینوں گاڑیاں دو کروڑ کی ادائیگی پر آصف زرداری کے نام کر دی گئیں۔
نیب کا مؤقف تھا کہ آصف زرداری نے تین گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کیں۔
سابق وزیراعظم کے متعلق نیب نے بتایا کہ نواز شریف 2008 میں کسی بھی عہدے پر نہیں تھے۔ نواز شریف کو 2008 میں بغیر کوئی درخواست دیے توشہ خانے سے گاڑی دی گئی اور ان گاڑیوں کی ادائیگی عبدالغنی مجید نے جعلی اکاؤنٹس سے کی۔
کوٹ لکھپت جیل میں نیب کی ابتدائی پوچھ گچھ میں نواز شریف کا موقف تھا کہ انہیں 1992 ماڈل گاڑی ان کے دوسرے دور حکومت میں ایک دوست ملک سے تحفے میں دی گئی تھی جو کہ سال 1997 میں قومی توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئی تھی۔ بعد میں یہ گاڑی 2008 میں انہیں بغیر درخواست دیے تحفے میں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ گاڑی غیر قانونی طریقے سے خریدی گئی۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف کو ملنے والی مرسیڈیز گاڑی کی اصل قیمت 42 لاکھ تھی جس کا 15 فیصد یعنی چھ لاکھ ادا کرکے گاڑی انہیں پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے تحفے میں دی گئی۔
ریفرنس میں ملزم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے انہوں نے توشہ خانہ کی گاڑیاں نواز شریف اور آصف زرداری کو قوائد و ضوابط کے مطابق دیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مذکورہ گاڑیاں سیکریٹری کیبنٹ کی سفارش پر دی تھیں اور ایسا قانون کے مطابق سمری آنے پر کیا گیا تھا۔
توشہ خانے کے تحائف کا کیا استعمال ہوتا ہے؟
سرکاری طور پر ملنے والے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ تاہم جمع کروانے کے بعد 30 ہزار روپے تک مالیت کے تحائف صدر، وزیراعظم یا جس بھی شخص کو تحفتاً ملا ہو وہ مفت حاصل کر سکتا ہے۔
تاہم 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کے لیے ان شخصیات کو موجودہ قانون کے مطابق اس کی قیمت کے تخمینے کا نصف ادا کرنا لازم ہوتا ہے جس کے بعد وہ اس کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔
قیمت کا تخمینہ ایف بی آر اور پرائیویٹ ماہرین لگاتے ہیں۔ تاہم دسمبر 2018 کے ضابطہ کار کے تحت تحفے میں ملنے والی گاڑیاں اور نوادرات خریدے نہیں جا سکتے، بلکہ گاڑیاں سرکاری استعمال میں آجاتی ہیں اور نوادرات صدر، وزیراعظم ہاؤس، میوزیم یا سرکاری عمارتوں میں نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں توشہ خانہ کے دو سو کے قریب تحائف کی نیلامی کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق ان اشیا کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین اور فوج کے ملازمین حصہ لے سکتے ہیں۔
لیکن اس نوٹیفیکیشن کو لاہور ہائی کورٹ میں چلینج کر دیا گیا تھا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اس سال 25 مئی کو توشہ خانے کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی کی پالیسی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ حکومت اس پر قانون سازی کرے۔ فیصلے کے مطابق درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانے کی چیزیں پبلک پراپرٹی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’ان چیزوں کا عجائب گھر بنا دیں، عوام کو بولی میں شامل نہ کرنا دھتکارنے کے مترادف ہے۔‘
کابینہ ڈویژن کے ایک اعلی افسر کے مطابق اس وقت کابینہ ڈویژن ان تحائف کے حوالے سے نئی پالیسی تشکیل دے رہی ہے تاہم یہ بھی امکان ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جائے۔
توشہ خانہ میں کون کون سے تحائف موجود ہیں؟
سرکاری حکام کے مطابق جو تحائف صدر، وزیراعظم یا حکام نہیں خریدتے ان کو ایک مقررہ مدت کے بعد نیلامی میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیل کے مطابق اس وقت توشہ خانہ میں 1200 روپے کے پیالوں سے لے کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک کی گھڑیوں سمیت متعدد اشیا موجود ہیں جن میں کلاشنکوف، پینٹنگز، گھڑیاں، پین اور سٹیشنری کی اشیا شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران 18-2017 کی رپورٹ جمع کروائی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 90 بیوروکریٹس نے دو کروڑ سات لاکھ کے تحائف توشہ خانہ سے خریدے۔
وزارت داخلہ کے سیکشن افسر شہزاد انجم نے نوے لاکھ مالیت کے زیورات خریدے۔ پی اے سی کامرہ کے پروگرام منیجر جاوید اقبال نے 27 لاکھ کی بلغاری گھڑی خریدی۔ ایوان صدر کے پروٹوکول افسر محمد سعید نے متعدد اشیا خریدیں۔
کابینہ ڈویژن کے نجیب اللہ نے 600 روپے میں مجسمہ خریدا اور غلام محمد نے صرف 3500 میں کارپٹ خریدا۔
سیکریٹری ایوان صدر نے ماربل ڈیکوریشن پیس دو ہزار روپے میں خریدا جبکہ اسسٹنٹ سیکریٹری پروٹوکول ایوان صدر نے تین ہزار روپے میں نایاب فلائی کاٹ ان امبر کا گفٹ خریدا۔ 20 ہزار 560 روپے میں دیوار پر سجاوٹ کی تصویر خریدی گئی۔
اس کے علاوہ دو ہزار 400 روپے میں ایک لیمپ اور 45 ہزار 500 روپے میں قیمتی تحائف کا باکس خریدا گیا۔ باکس میں امپورٹڈ پرفیوم سیٹ، لوبان دان سگریٹ لائیٹر اور نایاب خوشبویات شامل تھیں۔
سعید خان نے نو ہزار 500 روپے میں دو ڈیکوریشن پیس اور تین ہزار 250 روپے میں ایک خنجر خریدا جبکہ محمد بلال ظفر نے تین ہزار روپے میں ٹیبل کلاتھ خریدا۔
اسسٹنٹ کیبنٹ ڈویژن رضوان احمد نے چار ہزارروپے میں خنجرخریدا۔ سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ شعیب احمد صدیقی نے بیلا کٹورا دو ہزار روپے میں خریدا۔ سیکریٹری شماریات ڈویژن رخسانہ یاسمین نے دو کارپٹ 22 ہزار اور 25 ہزار روپے میں خریدے۔
ایس او کیبنٹ ڈویژن نجیب اللہ نے 600 روپے میں دوستی کی علامت کا مجسمہ خریدا۔