Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ اینٹی بائیوٹک ادویات کیوں استعمال کرتے ہیں؟

رپورٹ کے مطابق غیرمستند معالجین کی بڑی تعداد بغیر کسی تشخیص کے مریضوں کو ادویات تجویز کرتی ہے۔ فائل فوٹو: فری پکس
پاکستان کی وزارت قومی صحت نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے کئی عام بیماریوں کا علاج مشکل ہو چکا ہے۔
قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں جراثیم ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ دوائیں اب پہلے جیسی مؤثر نہیں رہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، سال 2017 سے پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت میں مستقل اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے اور اس کے سدِباب کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارت صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں کچھ ادویات اور بیماریوں کا تجزیہ کیا ہے جو حیران کن ہے۔
’سال 2023 میں ای کولی نامی بیکٹیریا، جو عام طور پر پیشاب کی نالی کی بیماری (یورینری انفیکشن) کا سبب بنتا ہے، سے متاثرہ 75 فیصد مریضوں پر ایک اہم اینٹی بایوٹک سیفٹریاکسون اثر نہیں کر رہی تھی، اور سال 2024 میں یہ مزاحمت 77 فیصد تک پہنچ گئی۔ اسی طرح کلیبسیلا نمونیا نامی بیکٹیریا جو سانس اور پیشاب کی نالی کے انفیکشنز کا باعث بنتا ہے، میں بھی ادویات کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہوا ہے۔‘
سال 2023 میں 64 فیصد مریضوں پر ایک اہم دوا بے اثر ہو چکی تھی، جب کہ 2024 میں یہ تعداد 68 فیصد تک جا پہنچی۔
ٹائیفائیڈ بخار کے مریضوں میں بھی اینٹی بائیوٹکس کی بے اثری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ سال 2023 اور سال 2024 میں ٹائیفائیڈ کے 38 فیصد مریضوں میں عام اینٹی بائیوٹکس کا اثر بالکل ختم ہو گیا تھا، اور 72 فیصد مریضوں پر سیفٹریاکسون جیسی عام دوا اثر نہیں کر رہی تھی۔ یعنی پہلے جو بخار آسانی سے چند دن میں ختم ہو جاتا تھا، اب اس کے علاج کے لیے مزید پیچیدہ اور مہنگی دواؤں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
اسی طرح اسٹیفائلوکوکس اوریئس نامی بیکٹیریا، جو جلدی انفیکشنز اور سانس کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، میں بھی 68 فیصد مریضوں میں مزاحمت پائی گئی۔ ایک اور خطرناک بیکٹیریا ایسینیٹوبیکٹر جو اکثر ہسپتال میں موجود مریضوں کو متاثر کرتا ہے، میں بھی 74 فیصد مریضوں پر طاقتور اینٹی بائیوٹکس بے اثر ہو چکی ہیں، اور 20 فیصد مریضوں پر تو کوئی بھی دوا کارگر نہیں ہو رہی۔

وزیر صحت مصطفیٰ کمال کے مطابق حکومت نے  اینٹی بائیوٹکس کے غیرضروری استعمال کو روکنے کے اقدامات کیے ہیں۔ فائل فوٹو: فری پکس

اینٹی بایوٹک کے غلط اور بے جا استعمال کے حوالے سے دنیا بھر کے ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اس مسئلے کو اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے اینٹی بایوٹک ادویات کے غیر ضروری استعمال سے اینٹی مائیکروبیل مزاحمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور اگر یہی رجحان برقرار رہا تو عام انفیکشنز بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ اینٹی بائیوٹکس کا غلط استعمال ہوگا، وہ اتنی ہی کم مؤثر ہوں گی، جس سے انفیکشنز کے علاج کے لیے آپشنز محدود ہو جائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر میری پال کینی نے اس غلط فہمی کو خطرناک قرار دیا ہے کہ ’اینٹی بائیوٹکس ہر بیماری کا علاج کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ سوچ لوگوں کو خود دوا لینے اور غیر ضروری استعمال کی طرف لے جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے آسانی سے قابل علاج بیماریاں مزید پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کو سختی سے منظم کرنے، عوام میں شعور بیدار کرنے اور اینٹی مائیکروبیل مزاحمت کے خلاف مؤثر پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وزارت صحت کے مطابق یہ صورتِ حال اس لیے بھی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ لوگ بغیر کسی معالج کے مشورے کے اینٹی بائیوٹکس لے رہے ہیں، غیرضروری طور پر ان دواؤں کا استعمال کیا جا رہا ہے، اور دوا فروش بغیر نسخے کے یہ دوائیں دے رہے ہیں۔ نتیجتاً جراثیم اتنے طاقتور ہو رہے ہیں کہ عام دوائیں ان پر اثر ہی نہیں کرتیں۔
وزارت صحت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس ادویات کے بے قابو استعمال کی ایک بڑی وجہ سیلف میڈیکیشن یا اپنا علاج خود کرنے کا رجحان ہے، ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 51 فیصد سے زائد عوام کسی مستند معالج سے رجوع کیے بغیر خود ہی یہ دوائیں لے لیتے ہیں۔‘

وزارت صحت کے مطابق لوگ بغیر کسی معالج کے مشورے کے اینٹی بائیوٹکس لے رہے ہیں۔ فوٹو: فلکر

علاوہ ازیں غیرمستند معالجین کی بڑی تعداد بھی بغیر کسی سائنسی بنیاد کے مریضوں کو یہ دوائیں تجویز کرتی ہے، جس سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو رہا ہے۔ دوا خانوں (فارمیسیز) پر بھی یہ ادویات بغیر کسی طبی مشورے کے دستیاب ہیں، جس کے باعث عوام باآسانی انہیں خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ بعض مستند معالج بھی مریضوں کو غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس تجویز کر دیتے ہیں، خاص طور پر ایسے کیسز میں جب مسئلہ وائرل انفیکشن کا ہو جس میں ان ادویات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان نے اینٹی بائیوٹکس کے غیرضروری استعمال کو روکنے اور ان کے خلاف مزاحمت کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔
وزارت قومی صحت نے ملک گیر نگرانی کا نظام قائم کیا ہے، جو سرکاری و نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں سے ڈیٹا اکٹھا کرکے عالمی ادارہ صحت کے شعبہ نگرانی کو فراہم کرتا ہے، تاکہ عالمی سطح پر اس بحران پر نظر رکھی جا سکے۔
حکومت نے قومی پالیسی میں ادویات کے خلاف جراثیمی مزاحمت کو ایک ترجیحی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی صحت تحفظ پلان میں شامل کر لیا ہے، تاکہ صحت کے تحفظ کے لیے پائیدار اقدامات کیے جا سکیں۔
حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کے ایکشن پلان کی مکمل حمایت کی ہے اور اسے قومی پالیسی کا حصہ بنایا ہے، جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ بیماریوں کے علاج میں ان دواؤں کا درست، محفوظ اور مؤثر استعمال کیا جائے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد عوام کو ایسی معیاری اور محفوظ ادویات فراہم کرنا ہے جو نہ صرف مؤثر ہوں بلکہ ان کا غیر ضروری استعمال بھی روکا جا سکے، تاکہ ان کے خلاف مزاحمت کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

ادویات کے غیرضروری استعمال سے انسانی صحت کو مزید پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: فری پکس

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
وزارت صحت کے مطابق حکومت مختلف تعلیمی اور طبی اداروں میں آگاہی پروگرام چلا رہی ہے، تاکہ عوام، معالجین اور دوا سازوں (فارماسسٹس) کو ان ادویات کے غیرضروری استعمال کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے۔
فارماسسٹس کو بھی اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ بغیر معالج کے نسخے کے یہ ادویات فروخت نہ کریں۔ تاہم یہ مسئلہ صرف حکومتی اقدامات سے حل نہیں ہو سکتا بلکہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ ہر شخص کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دوائیں ہر بیماری کا حل نہیں ہوتیں اور ان کا غیر ضروری استعمال مستقبل میں بیماریوں کے علاج کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں جراثیمی مزاحمت ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو عام بیماریوں کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس غیر مؤثر ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں متبادل علاج کے طریقے مزید مہنگے اور محدود ہو جائیں گے اور صحتِ عامہ کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
’اس بحران پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، معالجین، دوا ساز ادارے اور عوام سب مل کر مؤثر اقدامات کریں تاکہ بیماریوں کے علاج کو محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکے۔‘

شیئر: