ارشد خان المعروف ’چائے والا‘ کا شناختی کارڈ کیوں بلاک ہوا؟
ارشد خان المعروف ’چائے والا‘ کا شناختی کارڈ کیوں بلاک ہوا؟
بدھ 9 اپریل 2025 14:23
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
ارشد خان نے لندن میں بھی پارٹنرشپ پر ’چائے والا‘ کیفے کھولا تھا۔ فوٹو بشکریہ: ارشد خان
سنہ 2016 میں اسلام آباد کی ایک سبزی منڈی میں چائے بناتے ایک نوجوان کی تصویر نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا تھا۔ نیلی آنکھوں اور پرکشش شخصیت کے باعث یہ تصویر وائرل ہوئی اور ارشد خان، جو اُس وقت ایک معمولی چائے والا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ سنسیشن بن گیا۔
آج ایک بار پھر ارشد خان خبروں کی زینت بنے ہیں مگر اس بار وجہ ان کی شخصیت نہیں بلکہ اُن کا شناختی کارڈ ہے، جو اچانک بلاک کر دیا گیا۔ اس غیرمتوقع اقدام کے خلاف ارشد خان نے عدالت سے رجوع بھی کیا ہے۔
شناختی کارڈ کب اور کیسے بلاک ہوا؟
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد خان نے بتایا کہ چند روز قبل جب وہ پاسپورٹ کی تجدید کے لیے قریبی دفتر پہنچے تو بائیومیٹرک تصدیق کے دوران سسٹم نے ان کے فنگر پرنٹس مسترد کر دیے۔ ’جب فنگر پرنٹس نہیں ملے تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کا شناختی کارڈ تو بلاک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف شناختی کارڈ بلاک ہونے سے وہ لاعلم تھے بلکہ انہیں اس سے پہلے کوئی نوٹس بھی موصول نہیں ہوا۔ ارشد خان نے الزام لگایا کہ کسی نے بدنیتی سے اُن کے خلاف سازش کرتے ہوئے شناختی کارڈ بلاک کروایا ہے۔
’میرے خلاف نہ کوئی کیس ہے، نہ میرا کسی سے کوئی تنازع ہے۔ میں پاکستانی شہری ہوں۔ میری پیدائش اسلام آباد کی ہے جبکہ میرے والد کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔‘
شناختی کارڈ کی بحالی کے لیے قانونی چارہ جوئی
شناختی کارڈ کی منسوخی کے بعد ارشد خان نے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ سے رجوع کیا ہے۔ عدالت میں دائر کردہ رٹ پٹیشن میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شناختی کارڈ بلاک کرنا نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ یہ 2002 کے رجسٹریشن آرڈیننس کی خلاف ورزی بھی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ نادرا ارشد خان سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگ رہا ہے، جو نہ صرف غیرعملی مطالبہ ہے بلکہ ایک باعزت شہری کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ہے۔
نادرا کا مؤقف کیا ہے؟
اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ترجمان سید شباہت علی نے اپنے ردعمل میں بتایا کہ ارشد خان کا قومی شناختی کارڈمیں اس وقت 2018 میں ضبط کیا گیا تھا۔
’اس وقت ان کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد یہ شبہ پیدا ہوا تھا کہ انہوں نے اور ان کے خاندان نے نامکمل دستاویزات کی بنیاد پر قومی شناختی کارڈ حاصل کیا ہے اور وہ ممکنہ طور پر غیر ملکی شہری ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ’نادرا آرڈیننس 2000 کے تحت قانونی نوٹسز جاری کیے جانے کے باوجود درخواست گزار کئی برس تک تصدیقی بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔‘
’سنہ 2024 میں ارشد خان تصدیقی بورڈ کے سامنے پیش ہوئے، تاہم وزارت داخلہ کی ہدایت کے مطابق لازمی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ جن میں 1979 سے پہلے جاری شدہ زمین کی ملکیت، ڈومیسائل یا تعلیمی اسناد شامل تھیں۔‘
نادرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ ان کے ذاتی ریکارڈ میں تضادات بھی پائے گئے جن میں نام کی تبدیلی اور خاندانی رجسٹریشن میں بے ضابطگیاں شامل تھیں۔‘
’نادرا نے درخواست گزار کو متعدد مواقع فراہم کیے، جن میں جنوری 2025 میں ایک خصوصی تصدیقی بورڈ بھی شامل تھا۔ یہ تمام اقدامات قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور درخواست گزار کو وضاحت کا موقع فراہم کرنے کے لیے کیے گئے تھے، تاہم وہ ان تقاضوں پر پورا نہ اُتر سکے۔‘
سید شباہت علی کے مطابق ’نادرا ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ قومی ڈیٹابیس کی شفافیت اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، اور تمام معاملات کو مکمل میرٹ اور قانونی بنیادوں پر بلاامتیاز نمٹایا جاتا ہے۔‘
اس سے قبل بھی شناختی کارڈ کی منسوخی کی وجوہات جاننے کے لیے اردو نیوز نے نادرا کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا تھا۔ ادارے کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ارشد خان کی شہریت سے متعلق کوئی مستند دستاویز پیش نہیں کی گئیں جس کے باعث ان کا شناختی کارڈ بلاک کیا گیا اور شناختی کارڈ بلاک ہونے کی صورت میں پاسپورٹ بھی غیرفعال ہو جاتا ہے۔
افسر نے مزید بتایا کہ جب بھی کسی شہری کی دستاویزات میں تضاد یا عدم تصدیق کا خدشہ ہو تو نادرا قانون کے مطابق کارروائی کر سکتا ہے۔
ارشد خان کے مطابق وہ ضلع اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔ فائل فوٹو: ارشد خان
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شناختی کارڈ جاری کرتے وقت ایسی دستاویزات کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا؟ تو اُن کا جواب تھا کہ نادرا کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر ڈیٹا کی تصدیق نو کر سکے۔
عدالت کی کارروائی
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے ارشد خان کی درخواست پر نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں سے 17 اپریل تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس جواد حسن نے واضح کیا کہ سینیئر حکام متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں اور شناختی کارڈ منسوخی کی وجوہات سے مکمل آگاہی فراہم کریں۔
ارشد خان کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ میڈیا میں اس معاملے کی خبر آنے کے بعد ان کے کاروبار اور کیریئر کو نقصان پہنچا ہے جو کہ ان کے لیے ایک اور بڑا دھچکہ ہے۔