باہر کے ممالک میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے؟یہ لو گ صرف اپنے رہنماؤں کا استقبال کرتے ہیںا ور اپنے کام نکالتے ہیں۔حکومت اور سیاسی جماعتیں یہاں پاکستانی کمیونٹی کو منقسم کررہے ہیں۔ اردو نیوز کو انٹرویو
** انٹرویو:مصطفی حبیب صدیقی** **
(محترم قارئین کرام !آج ہم صفحہ زندگی پر آپ کی ملاقات خاتون صحافی سے کرارہے ہیں۔یاسمین طہٰ پاکستان کے معروف اخبارات سے وابستہ رہیں،جبکہ جدہ میں بھی ایک عرصہ گزار چکی ہیں اور آج کل کینیڈا میں ہیں۔جامعہ کراچی سے جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد پاکستان اینڈ گلف اکنامسٹ کے ساتھ منسلک ہوگئیں۔1983ء میں شادی کے بعدشوہر کی ملازمت کی وجہ سے ریاض منتقل ہوگئیں جس کے بعد1985ء میں جدہ منتقل ہوئیں۔تعارف میں اہم بات کا ذکر کرکے آپ کی ملاقات براہ راست کرادیتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ یاسمین طحہ اردونیوز کے معروف اور سینئر صحافی اور انچارج اسپورٹس ڈیسک مرحوم ظفر اقبال کی کلاس فیلوتھیں )
** اردونیوز:سعودی عرب میں کب تک رہیں اور کیسا دیکھا سعودی عرب؟
** یاسمین طہٰ :میں1983ء سے1993ء تک سعودی عرب میں رہی۔جب
شادی کے بعد سعودی عرب آئی تو فوراً ملازمت کی کوشش شروع کردی کیونکہ گھر میں بیٹھ کر کیاکرتی ؟ میرے گھر کے پاس اسکول تھا۔ میں اس میں گئی تو انہوں نے مجھ سے میری تعلیم پوچھی تو میں نے انہیں بتایامیں نے ماسٹرز کیاہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں میٹرک پاس لڑکی چاہیے۔ میں نے کہا کہ میں نے میٹرک کے بعد ہی ماسٹرز کیا ہے۔
**اردونیوز: خاتون صحافی کے طور پر خود کو منوانا کافی مشکل ہوتا ہے آپ اس حوالے سے قابل تقلید ہیں۔ کیا مشکلات آئیں آپ کے سامنے؟
**یاسمین طہٰ: پہلے تو میں اپنی کامیابی اور صحافت کے حوالے سے 2افراد کو کریڈٹ دینا چاہوں گی ایک میرے شوہر علی اصغر اور ایک میرے استاد محمود شام۔دونوں نے مجھے ہمیشہ حوصلہ دیا او ر میری بھرپور رہنمائی کی ۔آج اگر دنیا میں لوگ مجھے جانتے ہیں تو یہی دونوں افراد اس کی تعریف کے حقدار ہیں۔ جہاں تک رہ گئی مشکلات کی بات تو یہ حقیقت ہے کہ جب ایک خاتون گھر سے نکلتی ہے تو مرد اسے آگے نہیں بڑھنے دیتے مگر محمود شام صاحب نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ کام سکھایا ،میرے بچوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔کبھی پڑھائی کیلئے تنگ نہیں کیا۔گھر جاتی تھی تو بچے اپنا ہوم ورک کرکے رکھتے تھے۔ کبھی مجھے کہنا نہیں پڑتا تھا۔یہ بہت بڑا تعاون ہوتا ہے ایک ماں کیلئے۔خواتین صحافیوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔صحافیوں کے مسائل پر تو بات ہوتی ہے مگر خاتون صحافی کے بارے میں بات نہیں ہوتی۔اگر ایک میڈیا گروپ میں نوکری ہوگی تو مرد وں کی کوشش ہوگی کہ یہ نوکری کسی مرد کو مل جائے پھر تنظیموں میں بھی کوشش ہوتی ہے کسی عورت کو آگے نہ آنے دیا جائے۔
** اردونیوز:آپ نے ہمارے اخبار کے سینئر ساتھی مرحوم ظفر اقبال کے ساتھ ایک ہی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی۔ کیسا پایا ظفر صاحب کو؟
** یاسمین طہٰ: ظفر اقبال کے ساتھ جامعہ میں بہت اچھا وقت گزارا ہے ۔ظفر اقبال سے آخری ملاقات میرا خیال ہے 1993ء میں جدہ میں میرے گھر میں ہوئی۔اس وقت اردونیوز کیلئے خواتین صحافی کی تلاش جاری تھی جس پر ظفر اقبال میرے گھر آئے لیکن ہم پاکستان جانے کا فیصلہ کر چکے تھے ۔ مرحوم میرے بہت اچھے دوست تھے۔ جامعہ میں بھی بڑی محنت کی انہوں نے ،دن میں جامعہ کراچی آتے اور شام میں نوکری کرتے۔
**اردونیوز:سعودی عرب میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟
** یاسمین طہٰ: سعودی عرب میں تو بچوں کی تربیت کے بہت مواقع ہیں کیونکہ خواتین گھروں میں ہوتی ہیں تاہم سعودی عرب میں خواتین کو ’’سونے‘‘ کا بہت شوق ہوتا ہے اس میں دونوں اقسام کے سونے ہوتے ہیں ایک نیند والا ’سونا‘‘ اور ایک زیور والا’’سونا‘‘۔سعودی عرب میں ایک مسئلہ ہے کہ غیرملکیوں کیلئے تعلیم کے مواقع کم ہیں مگر خواتین اگر یہ سوچ لیں کہ اس سال وہ سونے کے کڑے نہیں لیں گی تو بچوں کو اچھی تعلیم دلاسکتی ہیں۔
** اردونیوز:ـتعلیم کے حوالے سے اگر میں آپ سے سوال کروں کہ پاکستانی سفارتخانے کے تحت جو اسکولز ہیں ان کا معیار آپ نے کیسا دیکھا ؟
** یاسمین طہٰ: پاکستانی اسکولوں کا معیار بہت خراب ہے اور یہ معیار صحیح کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر تعلیم ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ اچھی تعلیم تو’’ ایلیٹ‘‘ کلاس کیلئے ہے ۔پھر ہمارا ہاں تعلیم پر جو پیسے لگاتے ہیں لوگ اسے خرچ سمجھتے ہیں۔ اگر اسے سرمایہ کاری سمجھیں تو بہت بہترہوسکتی ہے۔ بیرون ملک انڈین اسکول بہت بہتر ہیں۔مسقط میں انڈین اسکول میں پاکستانی پڑھ رہے ہیں۔ آپ ایلیٹ کلاس کی یہی مثال لے لیں کہ پاکستانی سفارتخانوں کی تقریبات میں عام آدمی شریک نہیں ہوتے۔
** اردونیوز:سعودی عرب میں گزرے لمحات کو یاد کرتی ہیں؟ کیا سوچتی ہیں؟
** یاسمین طہٰ :مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب میرے بچے چھوٹے تھے میں نے جدہ میں جو بھی دن گزارے وہ سارے دن یاد گار ہیں۔بچوں پر پوری توجہ ،اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارانا ،سکون کے لمحات۔ سعودی عرب میں یہی بات سب سے زیادہ خوش آئند ہے کہ ماں اور باپ دونوں اپنے بچوں پر خاص توجہ دے سکتے اور ان کی تربیت کرسکتے ہیں۔
** اردونیوز:آپ نے پاکستان اورسعودی عرب کے مسلمان معاشرے اور کینیڈا کا غیرمسلم معاشرہ دیکھا ،ان کا تقابل کس طرح کرینگی؟
** یاسمین طہٰ :کینیڈا میں دو طرح کی خواتین دیکھی ہیں۔ ایک تو وہ جو اسکارف کرتی ہیں اور ایک وہ جوماڈرن ضرور ہیں مگر دین پر کاربند ہیں۔یہاں خواتین اپنی بیٹیوں کے رشتوں کیلئے بہت پریشان ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ خواتین بیٹی کیلئے جتنی یہاں پریشان ہیں اتنی تو پاکستان میں بھی نہیں ۔یہاں خواتین اپنی بچیوں کو ’’پراڈکٹ ‘‘بناکر پیش کررہی ہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ بیٹیوں کی بھی عزت نفس ہوتی ہے۔اتنا زیادہ جھک جانا کہ ہماری بیٹی ہے اس کا رشتہ کرادیں کیونکہ یہاں کے جو بچے پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں انہیں پاکستان سے لڑکا یا لڑکی نہیں چاہیے۔ لڑکی جو یہاں پلی بڑھی ہے پاکستان جاکر نہیں رہ سکتی جبکہ اس لڑکی کو یہاں پر مطلوبہ رشتے نہیں مل رہے۔ لیکن ایک بات یہ جسے بیان کرنے سے پہلے میں علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ !
** ’’دین ہم نے لادینوں میں دیکھا ہے‘‘
** یہاں پر لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ بہت کرتے ہیں۔اسی وجہ سے پاکستانی اور ہندوستانی بھی ایماندار بن گئے ہیں۔یہاں کے ماحول نے انہیں وقت کا پابند اور ہر وقت مدد کرنے والا بنادیاہے تاہم اب بھی پاکستانیوں کی اکثریت وقت کی پابند نہیں بن سکی ہے۔ایک جگہ میرے اعزاز میں ظہرانہ رکھاگیا ۔مجھے1.30بجے کا وقت دیاگیا تاہم مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ہم نے میزبان کو فون کیا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس دن اندازہ ہوا کہ ہم اپنے آپ کو بدلنا ہی نہیں چاہتے۔گوروں کے ساتھ ہونگے تو گوروں کے حساب سے چلیں گے۔یہاں پر شادیوں اور تقریبات میں بھی پابندی وقت کا کوئی دور دور تک نام ونشان نہیں جبکہ گوروں میں ہے۔جب ہم گوروں میں یہ سب کرسکتے ہیں تو اپنی کمیونٹی میں کیوں نہیں کرسکتے؟ میں آپ کو بتائوں کہ یہاں بھی پاکستانی منقسم ہیں۔ یہاں بھی ایک دن عید نہیں ہوتی ۔یہاں پر ہندوستانی تو ہندوستانی ہوگا لیکن پاکستانی اپنی سیاسی اور نسلی وابستگی کے ساتھ ہوگا جو کہ غلط ہے۔باہر کے ممالک میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے؟یہ لو گ صرف اپنے رہنمائوں کا استقبال کرتے ہیںا ور اپنے کام نکالتے ہیں۔حکومت اور سیاسی جماعتیں یہاں پاکستانی کمیونٹی کو منقسم کررہے ہیں۔
** اردونیوز:آپ کے بچوں کی شادی ہوگئی؟
** یاسمین طہٰ: میری بیٹی ہانی طہٰ کی شادی ہوگئی وہ پاکستان میں ہوتی ہے۔ہانی بھی صحافی ہے اور پروڈیوسر ہے۔بیٹا انوسٹمنٹ بینکر ہے اور یہیں کینیڈا میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ملازمت کررہا ہے۔بیٹے کیلئے رشتہ دیکھنا ہے مگر مجھے گھروں میں جاکر لڑکیاں دیکھنا پسند نہیں ۔میں چاہتی ہوں ہم لوگ جو لکھتے اور بولتے ہیں وہ اپنے آپ پر تو نافذ کریں۔بیٹے پر چھوڑا ہوا ہے کہ جو پسند آئے گی تو ہم رشتہ لے کر چلے جائیں گے۔
** اردونیوز:پاکستان میں پانامہ کا شور ہے ،سیاسی ہلچل ہے۔ کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں پر کیااثرات ہوتے ہیں؟
** یاسمین طہٰ : کینیڈا میںدو قسم کے لوگ نظر آئے۔ ایک وہ پاکستانی ہیں جو منٹ منٹ کی خبر رکھتے ہیں اور ایک وہ گروپ ہے جو پاکستانی سیاست کو بالکل بھول چکا ہے اور میرے خیال ہے بہت اچھا ہے۔کیونکہ جس ملک میں وہ رہتے نہیں اس ملک کیلئے اتنی دلچسپی لینا اور وہاں کے الیکشن میں ووٹ کا حق مانگنا ہی کیوں؟جتنے لوگوں سے میرا رابطہ ہوا ہے وہ سیاستدانوں کو بے غیرتوں کا ٹولہ ہے وہ کہتے ہیں کہ آج کل جیسا پانامہ میں ایک آدمی کا کیس چل رہا ہے پھر بھی اسے شرم نہیں تو ہم پاکستان کیلئے کیوں سوچیں۔پاکستان میںالیکٹرانک میڈیا کے کردار سے بھی یہ لوگ بہت نالاں ہیں جو صرف منفی سوچ کو پروان چڑھارہا ہے۔
** اردونیوز:کینیڈا کا میڈیا کیسا ہے؟ کس حد تک آزادی ہے؟
** یاسمین طہٰ:میں نے کینیڈا کا اخبار دیکھا ہے ۔میں اوٹاوہ میں 150سال کی تقریبات میں شریک تھی ۔پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی تقریر تھی جبکہ پیچھے آتش بازی ہورہی تھی ۔لوگ اپنی اپنی کرسیاں لے کر گئے مگر کوئی کسی کو دھکا نہیں دے رہا تھا۔ کوئی خوف نہیں تھا کہ کوئی کسی کو دھکا دے گا ۔نہ کسی چھینا جھپٹی کا خوف تھا۔اس تقریب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس میں جسٹن ٹروڈ و خود ہی تقریب کے میزبان تھے ان کے ساتھ ان کی بیگم بھی تھیں اور دونوں کے ہاتھوں میں مائیک تھا۔ اس دوران انہوں نے پورے پروگرام کی کمپیئرنگ کی ۔ہمارے ہاں تو یہ تصو ر بھی نہیں کیاجاسکتا۔ ہمارے ہاں تو اسٹیج پر بیٹھنا اعزاز سمجھا جاتا ہے اور کمپیئرنگ کرنا یا میزبانی کرنا ماتحت افرادکی ذمہ داری سمجھتی جاتی ہے۔ بے شک یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔یہاں میں نے جس طرح سگنل پر بغیر ہارن کے انتظار کرتے دیکھا۔ وہی ان کی ترقی کی راز ہے ۔ہماری قوم جو سگنل پر اپنی باری کا انتظار نہیں کر سکتی وہ کہاں ترقی کریگی۔
** اردونیوز:آج کل سعودی عرب میں نئے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں جن سے غیر ملکیوں پر ٹیکس عائد ہوگئے ہیں پاکستانیوں کو آپ کیا مشورہ دینگی؟
** یاسمین طہ ٰ: سعودی عرب میں پاکستانیوں کو منصوبہ بندی کرلینی چاہیئے جبکہ پاکستانی حکومت کو بھی منصوبہ کرنی چاہیے ۔ سعودی عرب میں 20لاکھ پاکستانی ہیں تو اچھے خاصے تو واپس جائیں گے تو پاکستانی حکومت نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟کسی بھی حکومت نے باہر مقیم پاکستانیوں کیلئے کبھی کچھ نہیں سوچا۔ بس انہیں ترسیل زر چاہیے۔
** اردونیوز:کینیڈا کے مقامی افراد میں خاندانی نظام کس حد تک قائم ہے؟
** یاسمین طہٰ: کینیڈا میں تو خاندانی نظام ہے ہی نہیں۔ہمارے ہاں یا مشرق میں خاندانی نظام ہے مگر اب تو ہمارے ہاں بھی ٹوٹ رہا ہے ۔ہم سب اس کی لپیٹ میں آتے جارہے ہیں۔میرا خیال ہے جیسے جیسے اظہار کی آزادی مل رہی ہے اس سے عورت خودآزاد ہوگئی اور وہ کسی کی دخل اندازی نہیں چاہتی اور تنہا رہنا چاہتی ہے جبکہ خاندانی نظام یا فیملی یونٹ میں تو ساس ،نند اور دیگر رشتے ہونگے تو یہ اب برداشت نہیں کیاجارہا۔
--------------------------------------------