Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے عاقبت نااندیشانہ فیصلے

 
ترک صدر نے پاکستانیوں کو ترکی میں خدمات کی ترغیب دی ہے، ہزاروں ہنرمند پاکستانی اب ترکی کا رخ کرکے روزگار حاصل کرسکتے ہیں
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
ایسے حالات میں جب وزیراعظم نواز شریف کے گرد حزب اختلاف کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور انہیں بیک وقت پانامہ لیکس اور قومی سلامتی سے متعلق ایک پراسرار اخباری اطلاع کا سامنا ہے کچھ حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے ناعاقبت اندیش طرز عمل سے حکومت کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے ترک صدر رجب طیب اردوگان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے بائیکاٹ کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے جس کا شاید انہیں مستقبل میں کچھ ادراک ہوسکے۔ 
پاکستان میں ترک سفیر نے اسلام آباد میں عمران خان سے ملاقات کی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اس تاریخی موقع پر پارلیمنٹ سے اپنے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظرثانی کریں اور اس اجلاس میں اپنی شرکت لازمی بنائیں تاکہ مخالفین کو بھی اندازہ ہوسکے کہ باہمی اختلافات کے باوجود اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر متحد ہیں مگر عمران خان نے ایک دوست اسلامی ملک کی استدعا کو کوئی اہمیت نہ دی اور پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف سے اپنے اختلافات کو گویا ایک عالمی مسئلہ بنانے کی کوشش کی اور پارلیمنٹ سے بائیکاٹ کے اپنے فیصلے پر اڑے رہے۔
عمران خان کو معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسی اسلام دشمن شخصیت کا امریکہ کا صدر منتخب ہوجانے سے اسلامی ممالک میں شدید بے یقینی پائی جاتی ہے اور انتہاءپسند تنظیموں کیخلاف کارروائی کی آڑ میں پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کےخلاف انتہائی اقدامات کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے اسلامی انتہاءپسند تنظیموں خصوصاً عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف مسلح کارروائی کے اعلان سے ہند میں غیر معمولی خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کیلئے ہندوستانی باشندے مذہبی تقریبات بھی کرتے رہے۔ 
اسلام دشمنوں کا یہ ایک دیرینہ خواب ہے کہ کسی بھی طرح وہ امریکہ کو پاکستان کیخلاف کارروائی پر مجبور کرسکیں۔ نئی دہلی نے پاکستان کو اپنے سامنے سرجھکانے پر مجبور کرنے کیلئے ہی 1998 ءمیں جوہری تجربات کئے تھے مگر یہ اس کا خواب ادھورا ہی رہا تھا جب نواز شریف اس دور میں بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھے پاکستان کی جانب سے جوابی جوہری تجربات کرکے ملک کی نئی تاریخ رقم کی تھی اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔
ہند نے اس واقعہ کے بعد بھی ایک سے زائد مرتبہ یہ کوشش کی کہ عالمی برادری خصوصاً امریکہ کو پاکستان کیخلاف کارروائی پر مجبور کیا جاسکے۔ نئے حالات میں تو انکے دل کی پرانی مراد بظاہر پوری ہونے جارہی ہے۔ انہی حالات کی روشنی میں ترک صدر نے پارلیمنٹ سے اپنی تقریر کے موضوعات کا انتخابات کیا تھا۔ انہوں نے بجا طور پر کہا تھا کہ عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کو مغربی دنیا کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس تنظیم کیخلاف ترکی بھی برسرپیکار ہے۔ پاکستان میں ترک صدر کے خطاب کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ ترکی کی جانب سے اسلامی دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف کارروائی کیلئے جواز پیدا کرنے کی کوشش کیخلاف اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور یہ امر پاکستان کیلئے باعث افتخار ہے کہ اسلامی دنیا کے ایک اہم ملک ترکی سے اسکے تعلقات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ترک صدر نے ہنرمند پاکستانیوں کو ترکی میں اپنی خدمات انجام دینے کی کوشش کرنے کی بھی ترغیب دی جس کی وجہ سے باور کیا جاتا ہے کہ دنیا کے متعدد ممالک سے روزگار کے مواقعوں سے محروم کئے جانے کے بعد ہزاروں ہنرمند پاکستانیوں کا رخ ترکی ہوسکتا ہے۔ ترکی میں پاکستانیوں کو بہت عزت افزائی حاصل ہے۔ ترک صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا فیصلہ کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں نہیں۔ عمران خان نے اپنا د وسرا غیر منصفانہ فیصلہ یہ کیا کہ عدالت عظمیٰ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنے وکیل حامد خان کو جج صاحبان کے ریمارکس پر اس قدر شرمندگی سے دوچار کیا کہ وہ اس اہم ترین مقدمے میں تحریک انصاف کی جانب سے پیروی سے الگ ہوگئے جن کی جگہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے وکیل بابراعوان کو یہ مقدمہ لڑنے پر مامور کردیاگیاہے۔
بابر اعوان نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف عدالت عظمیٰ میں کارروائی کے دوران ان کا گواہ بننے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد اس دور کے صدر آصف علی زرداری نے ا ن سے قطع تعلق کرلیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ کیخلاف بدکلامی کے سبب ان کا عدالت عظمیٰ میں وکالت کا لائسنس اس دور میں 2سال کیلئے معطل کردیاگیا تھا۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ تحریک انصاف کی جانب سے پانامہ لیکس کے حوالے سے بابر اعوان کیا گل کھلاتے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک نشری انٹرویو میں عمران خان کو” انوکھا لاڈ لا “ کا شعری خطاب دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے کوشش کی تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اعتزاز احسن کو عدالت عظمیٰ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کیخلاف اپنے مقدمے میں اپنا وکیل مقرر کرسکے جس میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی مگر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو پانامہ لیکس کے حوالے سے اہم مشوروں سے نوازنے کیلئے تیار ہیں ۔
واضح رہے کہ ابھی عدالت عظمیٰ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینا ہے جس کے حوالے سے آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اگر اس مجوزہ کمیشن کی تحقیقات سے بھی کچھ ثابت نہ ہوسکا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں طے ہوسکے گا۔دوسری جانب مبینہ طور پر قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن جانے والی خبر کی تحقیقات جاری ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ مریم نواز شریف کو اس نام نہاد اسکینڈل میں ملوث کرنا چاہتی ہے مگر وزیراعظم نے وزیر اطلاعات پر ویز رشید کو اس خبر کی اشاعت کا ذمہ دار قرار دےکر اپنی کابینہ سے فارغ کردیا اور ابھی اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں جس کے ملکی سیاست پر لازمی اثرات مرتبہ ہونگے۔
سیاسی محاذ پر رواں ہفتے میں یہ حوصلہ فزاءاطلاع عوام کے سامنے آئی کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو کو پیپلز پارٹی پنجاب کی صدارت سے خاموشی سے فارغ کردیا اور سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کا ئزہ کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر مقرر کیا ہے جبکہ پارٹی کے ایک متحرک رضا کار ندیم افضل کو پیپلز پارٹی پنجاب کا نیا سیکریٹری جنرل مقرر کیا ہے ۔ ان دونوں رہنماوں کو 2013 ءکے عام انتخابات میں حکمراں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ان دونوں پارٹی عہدیداروں کا انتخاب پارٹی کے اندر پیدا ہوجانے والے اختلافات کے خاتمے اور صوبہ پنجاب میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے کیاگیا ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ اس اقدام سے پارٹی کو پنجاب میں بڑے پیمانے پر عوام کی توجہ حاصل ہوگی اور وہ اس صوبے میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکیں گے جس کے براہ راست اثرات تحریک انصاف پر مرتب ہونگے جو اپنی غلطیوں کے سبب عوام میں اپنی مقبولیت کھورہے ہیں۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی ایک نشری انٹرویو میں کہا ہے کہ عمران خان نے مختصر سے عرصے میں بڑے پیمانے پر عوام میں مقبولیت حاصل کی تھی مگر وہ اس مقبولیت سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک اور انٹرویو میں انہو ںنے کہا کہ ملک میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے اس کا مستقبل میں بھی فائدہ حکمراں مسلم لیگ ن کو ہوگا اور غالباً 2018 ء کے عام انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہوسکتی ہے۔
اس سے پہلے عوام کو یہ جان کر صدمہ پہنچا کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ عزت افزائی حاصل کرنے والے آرمی چیف واقعی اگلے ہفتے اپنے منصب سے دستبردار ہورہے ہیں اور انہوں نے اپنے رفقائے کار اور دیگر اہم شخصیات سے الوداعی ملاقاتوں کا آغاز کردیاہے۔ ان کی حوصلہ مند قیادت کے طفیل ہی دہشت گردی کیخلاف فوج کے آپریشن ضرب عضب کا بہت حد تک کامیابی سے آغاز ہوسکا اور ان کی شاندار حکمت عملی کے سبب پاکستان کےخلاف جارحیت پر آمادہ ہند کے دانت کھٹے کئے جاسکے ۔باور کیا جانا چاہیئے کہ نئے آرمی چیف پاکستان کے دشمنوں کا اسی حوصلہ مندی سے مقابلہ جاری رکھیں گے مگر آئندہ انتخابات میں کامیابی تک وزیراعظم نواز شریف کی آزمائش کے کچھ امتحان ابھی باقی ہیں۔
******
 

شیئر: