Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا

مستقبل کے بارے میں پُر امید رہیں ، اللہ تعالیٰ سے توقع رکھیں کہ مستقبل اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر ہوگا

 

مولانانثاراحمد حصیر القاسمی ۔ حیدرآباد دکن

 

مستقبل کے بارے میں اچھی توقع رکھنا اور ہمیشہ پُر امید رہنا مومن کی خاص صفت ہے جس سے انسان کے اندر خوشی ومسرت کا احساس موجزن رہتا اور وہ اپنے مستقبل کو منفی نگاہ سے نہیں بلکہ مثبت زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے۔وہ ہر چیز کو مثبت نظر سے دیکھتا اور منفی انداز فکر سے گریز کرتا ہے۔ 

یہ امیدو بیم اور مومنانہ صفت انسان کو موجودہ مشکلات ودشواریوں سے برداشت کرنے کے قابل بناتی اور اس کے اندر روشنی پیدا کرتی ہے جس میں وہ مستقبل کو آج سے بہتر دیکھتا ہے کہ آج کے مصائب وآلام اور آج کی تاریکی چھٹے گی اور کل کا دن اس کے لئے ایک نئی بہار لے کر آئے گا ۔

امید وبیم اور نیک توقعات انبیائے کرام ؑ کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ میں سے شمار کئے گئے ہیں جبکہ ناامیدی کفر کی علامت قرار دی گئی ہے۔یہی وہ اخلاق اور وصف ہے جو انبیائے کرام ؑ کو اپنی دعوت ہر حال میں جاری رکھنے پر مجبور کرتی تھی اور وہ قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میںہمیشہ لگے رہتے تھے،وہ ان سے مایوس نہیںہوتے تھے ،وہ ان کے قبولِ حق کے انکار سے بد دل اور نا امید نہیں ہوتے تھے بلکہ انہیں امید ہوتی تھی کہ ان کی قوم جو آج انکار کررہی ہے، کبھی نہ کبھی ان کی بات سنے گی، اللہ کے پیغام کو قبول کریگی اور سیدھے راستہ پر چلنا پسند کریگی۔

طائف کا واقعہ اس کی زندہ مثال اور ہزاروں نمونوں میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ نبوت کے بعد10سال تک اپنی قوم قریش میں دعوت دیتے رہے مگر مایوس نہ ہوئے۔ اپنے ساتھ سیدنا زید بن حارثہؓ کو لے کر بنو ثقیف کے سردار عبدیالیل، مسعود اور حبیب ابنائے عمرو بن عمیر بن عوف کے پاس طائف گئے کہ شاید وہ اللہ کے دین کی حمایت کیلئے آمادہ ہوجائیںمگر ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا بلکہ بڑی بے رخی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا، اپنے اوباشوں ،غلاموں اور لونڈیوں کو لگا دیا جو آپ پر اینٹ ، پتھر پھینک رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کا جسم لہولہان ہوگیا۔ آپ نے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں جاکر اللہ تعالیٰ سے بڑی عاجزی وفروتنی سے دعا کی او راس کے بعد ہی اللہ رب العزت نے ملک الجبال کو آپ کی خدمت میں بھیجا جنہوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو ابھی اخشبین کو (مکہ کے 2پہاڑ ہیں) باہم ٹکرا دوں کہ سارے کفار پس کر رہ جائیں مگر آپ نے اسے پسند نہیں کیا بلکہ فرمایا نہیں: شاید ان کے اصلاب سے موحد پیدا ہوں جو اللہ کی عبادت کریں۔ اسی طرح غزوئہ احد کے موقع پر جبکہ جنگ کا بازار گرم تھااور آپ لہو لہان تھے، اس وقت بھی آپ پُر امید ہیں کہ یہ آج ہم سے لڑ رہے ہیں، مگر ہوسکتا ہے کہ کل ہمارے وفادار ہوجائیں۔ آپ نے صرف اتنا فرمایا:اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون۔

اس کا مطلب ہے کہ امید اَور مستقبل کے بارے میں اچھی توقعات کا ہونا ایسی طاقت ہے جو انسان کو تعمیری رول ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی کے سہارے انسان اس کرئہ ارضی کو آباد کرتا ، اونچی اونچی عمارتیںکھڑی کرتا ، کھیتی باڑی اور کاروبار کرتا ،نئی چیزیں ایجاد کرتا ، سیاست وحکومت میں اپنا رول ادا کرتا اور سنجیدہ جدوجہد اور مفید کام پورے اخلاص سے انجام دیتا ہے۔ بہتر مستقبل کی امید ایسی بھڑکتی روشنی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی انسان کو راستہ دکھاتی اور اس پر آگے قدم بڑھانے پر آمادہ کرتی ہے۔یہ روشنی انسان کی مدد ودستگیری کرتی ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کرسکے جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور انسان اپنی تمنائوں کو پورا اور اپنے خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرسکے۔

یہ انسان کو جھنجھوڑتی ہے کہ وہ مستقبل اور زندگی کے اگلے مراحل کو اس نگاہ سے دیکھے کہ آئندہ اس کے حالات بدلیںگے، اس کی زندگی پُربہار ہوگی ، اسے امن وسکون حاصل ہوگا، اسے اپنی دعوت عام کرنے آج سے زیادہ مواقع میسر آئیںگے اور موجودہ حالات دور ہوںگے ، عناد وعداوت کی فضا چھٹے گی اور کل کو آج سے زیادہ بہتر انداز میں مومنانہ زندگی بسر کر سکیںگے۔ آج سے زیادہ ہمیں آزادی ، خود مختاری حاصل ہوگی، آج سے زیادہ ہمیں چین وسکون اور امن وامان حاصل ہوگا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اسکے فیصلہ کے مطابق ہوگا۔ اس امید اور اس چھپی روشنی کی موجودگی میں انسان اپنی آئندہ کی زندگی اور مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتا ، اسی امید کی دیا روشن کرتے ہوئے اور بہتر توقعات کا ملکہ پیدا کرنے کے مقصد سے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :

’’اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی درخت کا پودا ہو اور وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگاسکتا ہو تو اسے لگا دینا چاہیے۔‘‘

بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ انسان کی فطرت وطبیعت اٹل اور اس کے اخلاق جبلی اوصاف ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے مگر یہ درست نہیں۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو انسان کے لئے اصلاحِ نفس کا امکان ہی ختم ہوجاتا اور تربیت کی ساری راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ہمیں سمجھنا اور یقین ماننا چاہیے کہ انسان کے اندر جدوجہد اور تربیت وریاضت کے ذریعہ بنیادی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے کیونکہ انسان بری حالت سے بھلی حالت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کبھی انسان بزدل ہوتا ہے مگر تربیت سے وہ بہادر بن جاتا ہے۔ کبھی بخیل ہوتا ہے مگر اصلاح سے سخی بن جاتا ہے۔ کبھی انسان نیک وبھلا کام کرنے والا ہوتا ہے مگر بری صحبت اور بری عادت سے بگڑ جاتا ہے۔

 

(مکمل مضمون روشنی 16دسمبر 2016کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)

شیئر: