Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آہنگ

بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر آپ انہیں پاکستان کی قومی یا علاقائی زبان میں ادا کریں تواکثر سننے والے آپ کو بدتہذیب نہ کہیں تو کم از کم کڑوے کسیلے منہ ضرور بنانے لگیں گے ۔

شہزاد اعظم

 

اردو میں مختلف زبانوںکے الفاظ کی شمولیت کسی ایک حد پر آ کر ٹھہری نہیں بلکہ اس میں غیر زبانوں کے مزید الفاظ شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ان غیر زبانوں میں فرنگی بولی سر فہرست ہے۔وجہ یہ کہ آپ’’ برگر‘‘ ہوں یا نہ ہوں،انگریزی بولنے لگیں تو لوگ آپ کو’’برگر فیملی‘‘کا رکن سمجھ کر محتاط انداز اختیار کرلیں گے۔ویسے بھی بہت سے الفاظ، جملے اور باتیں ایسی ہیں کہ اگر آپ انہیں پاکستان کی قومی یا کسی علاقائی زبان میں ادا کریں تواکثر سننے والے آپ کو بدتہذیب نہ کہیں تو کم از کم کڑوے کسیلے منہ ضرور بنانے لگیں گے ۔

آپ کو خود ہی خفت کا احساس ہو جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں بہت سی نعمتیں، وسائل، خصوصیات، خصائل اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں مگر ان سب تو کیا کسی ایک کی جانب توجہ دینے کی ہمیں فرصت نہیں کیونکہ ہمارا سارا وقت دو وقت کی روٹی کے لئے خون پسینہ ایک کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ایسے میں یہ کہنا بجا ہے کہ سمندر پار پاکستانی تین وقت کی روٹی کے لئے محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ فارغ وقت نکال لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پردیس میں جا کر نہ صرف وطن اور اہل وطن کے بارے میںآدمی بہت حساس ہو جاتا ہے بلکہ وہ ان ’’حقائق‘‘ پر بھی توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے جن کو وطن میں رہ کر وہ درخوراعتنا نہیں جانتا تھا۔

اسی کا ایک ثبوت پیش خدمت ہے:۔ ’’اردو پر ذرا غور کیجئے تو فٹ ذہن میں یہ حقیقت وارد ہوتی ہے کہ یہ بہت ہی میٹھی، منفرد اور پیاری زبان ہے۔اس کے بعض الفاظ تو الفاظ، حروف بھی اپنے اندر پوری کہانی لئے ہوئے ہیں۔ان کا تنہا استعمال ہی کسی لفظ کے مکمل صوتی اثرات دیتا ہے۔ان میں ب، پ، ت، چ، ح،د،ڈ،ر،ژ،س،ش،ص،ع،ل،ن،واور ہ وغیرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ’’ب‘‘کو دیکھئے،انگریزی میں’’BAY‘‘کہیں تو اس کا مطلب ساحل ہے۔اردو میں ’’بے‘‘کہیں تو یہ کسی وصف کا عدم ہونا ظاہر کرتا ہے مثلاًبے شرم، بے غیرت،بے وفااور بے کار وغیرہ۔اسی طرح ’’پ‘‘پر غور کریں تو یہ اردو میں ’’پر‘‘کے معنوں میں بولا جاتا ہے مثلاًاولاًکسی گنجے کے سر’’پ‘‘جا گرا ۔اسی طرح انگریزی میں بھی ’’PAY‘‘بہت عام لفظ ہے ۔یہ وہ شے ہے جس کا انتظار ہر کارکن ہر ماہ 29روزتک کرتا ہے۔’’ت‘‘حرف تو اردو کا ہے مگر اس کا تنہا استعمال پنجابی زبان میں ملتا ہے مثلاً’’تو پھر کیا ہوا‘‘ کا پنجابی ترجمہ یوں ہو گا کہ’’ت،فیر کی ہویا‘‘۔ ’’چ‘‘ایسا حرف ہے جس کا صوتی اثر اس وقت مکمل لفظ کے معانی دیتا ہے جب اردو میں مستعمل فارسی کا لفظ’’چہ‘‘بولا جائے مثلاً’’چ‘‘معنی دارد۔اسی طرح ’’د،ڈ،ر‘‘کا تو جواب ہی نہیں۔اگر کسی باورچی کے سامنے خالی پلیٹ لے جا کر چلا کر یہ تین حروف ادا کر دیئے جائیں تو وہ آپ کی خالی پلیٹ میں دال بھر دے گا۔بس ذرا غصے سے چیخ کر کہئے کہ’’د۔ڈ۔ر‘‘۔اس کے بعد ’’س‘‘بھی صوتی اثر کے اعتبار سے اہم ہے۔انگریزکے سامنے یہ حرف بولا جائے تو وہ اسے ’’SCENE‘‘سمجھے گا یا’’SEEN‘‘جانے گا۔’’ش‘‘ایسا حرف ہے جسے بعض لوگ کچھ عرصہ قبل تک جیمز بانڈ007فلموں کے ماضی کے ہیرو’’ش‘‘کونری کے لئے استعمال کر تے تھے۔کچھ لوگ اس لئے کیونکہ اس کے نام کا تلفظ سین کونری کے انداز میں بھی ہوتا تھا۔اس کے بعد ایک نیا نام خبروں کی زینت بنا جو ’’ش‘‘ڈنڈ ہے۔

’’ص‘‘کو بھی پنجابی بولنے والے سمجھ لیتے ہیں۔اس زبان میں یہ حرف لطف یا ذائقے کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلاًپنجابی میں کہا جائے کہ دال کھائی مگر مزہ نہیں آیا تو کہیں گے کہ’’د،ت، کھادی مگر’’ص‘‘نئیں آیا‘‘۔ ع، سے کون واقف نہیں، اردو میںبھی اس کا مطلب عربی کی طرح آنکھ ہی ہے۔’’ل‘‘کے صوتی اثرات بھی مکمل معانی دیتے ہیں۔لام کا مطلب فوج یا پلٹن ہے۔ماہرین کے مطابق ’’لام‘‘ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جسے اپنے انداز میں اردو میں شامل کر لیا گیا اور اس کے معنی ٹیڑھا کے بھی ہیں۔اس اعتبار سے زلف کو بھی لام کہا جاتا ہے۔ ’’ن‘‘کے معنی نمک کے ہیں اسے انگریز سنے تو وہ’’NOON‘‘ یعنی دوپہر سمجھے گا۔اس کے بعد’’و‘‘ہے جو ہمارے ہاں نئی نسل اور خصوصاًبچیوں میں عام ہو چکا ہے۔انہیں جب کسی بات کی تعریف کرنی ہو تو وہ واہ کی بجائے’’WOW‘‘کہتی ہیں۔یہ حیرت کے اظہار کے لئے بھی معروف ہو رہا ہے۔یہی حال ’’ہ‘‘کا بھی ہے۔

انگریز سنے تواسے ’’HAY‘‘ سمجھے گا۔ہمارے ہاں اکثر گانوں میں گلوکار جب الاپ دیتا ہے تو وہ ’’ہ‘‘جیسا آہنگ پردہ سماعت سے ٹکراتا ہے۔ہمارا ایک دوست حمزہ ہے وہ اپنے دستخط کرتے وقت صرف’’ء‘‘لکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم پاکستان میں تھے۔وہاں ہمیں اردو کے آخری دو حروف تہجی کے بارے میں انکشاف ہوا۔اتفاق یہ ہوا کہ ہم اپنے ایک دوست کے صاحبزادے کی شادی کے لئے اپنے ایک اور دوست کے ہاں رشتے کی غرض سے گئے۔میزبان نے کہا ،میری دو بچیاں ہیں، جس کوبھی آپ بیٹی بنانا چاہیں، مجھے منظور ہے۔بچیاں وہاں آئیں تو ان کے والد نے تعارف کراتے ہوئے کہا، ’’چھوٹی یہ،بڑی یہ۔ہمارے دوست تو اپنی بہوچننے میں مصروف تھے مگر ہم ’’ی‘‘ اور’’ے‘‘ کے سوتی آہنگ میں کھو گئے۔ کیا خوب ہے زبان اردو،WOW۔

شیئر: