Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لالی پاپ: ’’مشمولاتِ حیات ‘‘ کا اہم جزو

جب کوئی بچہ تنگ کرتا اور بھاں بھاں کر کے کمرے کی چھت سر پر اٹھا لیتا تو ماں کہتی کہ بیٹا خاموش ہو جاورنہ لالی پاپ نہیں دوں گی ۔

 

حسن محمد یوسف۔ جدہ

یہ اس دور کا ذکر ہے جب ہماری عمر لمحۂ موجود سے 6روز کم تھی اور ہم اپنے صاحبزادے کو جھولا جھلانے کی غرض سے پارک لے گئے تھے۔ وہاں ہم خودچالیس قدمی کررہے تھے اور بچے کو جھولے جھولنے میں لگا رکھاتھا کہ یکا یک صاحبزادے کی فرمائشی آوازہماری سماعتوں سے متصادم ہوئی کہ ’’ بابا جانی! لالی پاپ۔‘‘ہم چونکہ ٹھہرے باپ،ہم سے بچے کی ضد دیکھی نہیں گئی چنانچہ اسے فوری لے دی لالی پاپ۔ صاحبزادے کی محبت میں ہم نے آئو دیکھا نا تائو’’50پیسے ‘‘والی لالی پاپ ’’5روپے‘‘ میں خریدکر دے دی۔یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ 50پیسے کی چیز 5روپے میںخریدنے کے حوالے سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم دیوانگی کی حد تک فضول خرچ قسم کے آدمی ہیں، ایسا ہرگز نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ ہم مہنگائی سے پامال ہو کر ہی یہ انتہائی قدم اٹھانے پرمجبورہوئے ۔ اب پارک کاتازہ ترین منظر یوں تھاکہ ہمارے صاحبزادے ’’حصولِ لالی پاپ ‘‘میں کامیابی کے بعد جھولاجھولنے میں مصروف تھے۔

ہم صاحبزادے کی ضد پر سرمایہ کاری کرنے کے بعد بظاہر ’’فورٹی اسٹیپنگ‘‘ یعنی ’’چہل قدمی‘‘ میںمصروف تھے مگر ہمارے ذہن پر اب بھی لالی پاپ کی سوچ مسلط تھی ۔ اس سے مغلوب ہر کر ہم نے لالی پاپ کی تاریخ پر سوچنا شروع کردیا۔ سچ یہ ہے کہ آج تک لالی پاپ جیسی عالمی شہرت یافتہ اور ہردلعزیز شے کے بارے میں ہم نے کوئی کتاب وغیرہ نہیں دیکھی تھی ۔ رہا ’’وکی پیڈیا‘‘ تو وہ ہم جیسے ’’محدود اختیار کے حامل ‘‘ شخص پہنچ سے بہت دور ہے چنانچہ ہم نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے تاریخی معلومات اخذ کرنا شروع کردیں۔ ذرا غور و فکر کے بعد سمجھ میںیہ آیا کہ جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے تو گلی محلوں میں ٹھیلوں سے رنگ برنگے گنڈے گولے کھایا کرتے تھے۔اس وقت پوش علاقوں میں رہنے والے بچے اپنے والدین سے گنڈا گولا کھانے کی ضد کرتے تووہ ان کی ایک نہیں سنتے تھے اور دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ ’’نو سنی نو! اِٹس ان ہائی جینک‘‘، یہ کہہ کر وہ اپنے بچے یا بچوں کو پہلی دنیا سے درآمد شدہ’’ خشک گولا گنڈا‘‘ یعنی ’’ لالی پاپ‘‘ لے کر دیتے ۔ ہماری ایک عام کمزوری یہ ہے کہ ’’پوش‘‘ علاقوںکے مکینوں کی عادات واطوار، ادا و کردار، ’’ پاپوش‘‘ جیسے علاقوں میں رہنے وا لوں کیلئے لائقِ تقلید مثال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے بھی بچوں کو چُپ کرانے کے لئے لالی پاپ دینا شروع کر دی۔جب کوئی بچہ تنگ کرتا اور بھاں بھاں کر کے کمرے کی چھت سر پر اٹھا لیتا تو ماں کہتی کہ بیٹا خاموش ہو جاورنہ لالی پاپ نہیں دوں گی ۔

یہ سنتے ہی بچہ سناٹے کا شکار ہو جاتا اور اپنی مما کے ’’سیاسی وعدے‘‘ کی تکمیل کا بے چینی سے انتظار کرنے لگتا۔ یہی حال اسکولوں میں ہوتا تھا جہاں بچوں کو بہلانے اور انہیں پڑھائی کی طرف مائل کرنے کیلئے استانیاں لالی پاپ کا سہارالیتی تھیں۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے مختلف شعبوں میں لالی پاپ کے استعمال کا سلسلہ عام ہوتا گیا۔ اس طرح ماضی کے بچوں کی ضددورحاضر میں ’’مشمولاتِ حیات ‘‘ کا اہم جزو بن گئی۔ دورِ جدید میں ٹیکنالوجی نے عروج حاصل کر رکھا ہے ۔ ہر عمر اور ہر صنف سے تعلق رکھنے والی ہستیوں کے ہاتھوں میں ’’اسمارٹ فون‘‘ موجود ہے۔ اسمارٹ فون کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے لوگوں نے جب بہلنا شروع کیا تو ان کمپنیز نے ’’اینڈرائڈ لالی پاپ ‘‘ ورژن متعارف کروا یا اور یوں ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھوں میں لالی پاپ پکڑا دیا۔ کل رات کے خبرنامے میں ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جناب آپ ہمیں ووٹ دیں ،ہم اعلیٰ قسم کی سڑکیں تعمیر کرائیں گے، بچوںکی تعلیم اعلیٰ اور مفت کردی جائے گی۔اسپتالوںمیںغریبوں کا مفت علاج ہوا کرے گا۔ کچی آبادیوں کو ختم کرکے نئی طرز کی کالونیاںبنائی جائیں گی۔

شہر میں صفائی ستھرائی ہوگی ، سیورج سسٹم کو بہتر بنایا جائیگا، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائیگا وغیرہ وغیرہ۔اس سیاسی رہنما کا خطاب ہمیں بالکل ’’لالی پاپ‘‘ محسوس ہوا اور لالی پاپ بھی وہ جو صرف بچوں کو نہیں بلکہ مجھ جیسے ’’بزرگوں‘‘ کو بہلانے کے لئے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ بزرگوں اور بڑوں کودی جانے والی لالی پاپس بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں جو کبھی سیلز مین ، کبھی اپوزیشن ،کبھی موبائل کمپنیوں وغیرہ کی جانب میں عوام تک انتہائی بے تکلف انداز میںپہنچائی جاتی ہیں۔آپ یہ لالی پاپ لینے سے خواہ کتنا ہی انکارکیوں نہ کریں، وہ بصد اصرار آپ کو زبردستی لالی پاپ تھمانے کی کوشش کرتی ہیں۔ہمارے ہاں مختلف شہروں کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کے ’’ٹھگ‘‘ موجود ہیں جو وضع وضع کی لالی پاپس لئے لوگوں کو پھانسنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ان میں بعض ایسے ہیں جو آپ کی آنکھیں ، بال اور نبض دیکھ کر آپ کو سرطان، بے خوابی ، گنج پن وغیرہ جیسی ہر چھوٹی بڑی بیماری کا علاج بتا کر کچھ نسخے لکھ کر دیتے ہیں اور پھر اصل جڑی بوٹیاں دلانے کی غرض سے مزیدپیشکشیں کرتے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، وہ آپ کوایسی دوائیں خریدنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو اُن کے بقول ’’سستی اور اچھی ‘‘ ہوتی ہیں ۔اب اس دوا سے فائدہ ہو یا نہ ہو، آپ کی قسمت۔ موبائل کمپنیز آپ کو بے وقت ٹیلی فون کرکے اپنی نئی نئی آفر زاور پیکیج کے بارے میں تفصیلات بیان کرتی رہتی ہیں کہ آپ فلاں پیکیج کروا لیں تو آپ کو اتنے منٹ،اتنے ایم بی انٹرنیٹ بالکل مفت ملے گا ۔اس لالی پاپ کے ریپر کے نیچے لکھا ہوتا ہے ’’اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔‘‘

آج کل ہمارے ملک میں خاص قسم کی لالی پاپ دی جارہی ہے جسے حرف عام میں پانامہ لالی پاپ کہاجاتا ہے۔ اس لالی پاپ کی زد میں زیادہ تر کالج ، یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات اوربرگریت سے متاثر بچے اور بچیاںہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پڑھائی لکھائی کو درخورِ اعتنا نہ جانتے ہوئے سڑکوں پرٹہلتے یا کوئی پلے کارڈ تھامے یا کسی آگہی کے نام پر ’’واک ‘‘ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں بھی ’’ لالی پاپس کے تقسیم کنندگان ‘‘ آہ کے دروازے پر موجود ہوتے ہیں جو ووٹ کے لالچ میں آپ کوخاص قسم اور مختلف رنگوں کی لالی پاپس پیش کرتے ہیں ۔ پھر جب وہ ووٹ لے کر کامیاب ہوجاتے ہیں توہم جیسوں کو تووہ ’’ ترقی کی لالی پاپ‘‘ دے کر 5سال تک خوب رُلاتے ہیںمگر دوسری جانب وہ اپنے اوراپنے بچوں کیلئے نہ صرف لالی پاپس کا خرچہ بلکہ آنے والی نسلوں کے بچوں کی ضدیں پوری کرنے کے لئے بھی عوام سے پیشگی وصولی کر لیتے ہیں اور جب عوام شور مچاتے ہیں تو انہیں چُپ کرانے کے لئے وہ پھر لالی پاپ تھما دیتے ہیں۔

شیئر: