Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان اب سنبھل کر چلیں

 
سیاست جہاں انسان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے وہیں غلطیوں کی سزا بھی دیتی ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
عرصہ ہوا میں نے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی سیاست پہ نظر نہیں ڈالی۔ ملکی معاملات ایک کے بعد ایک اس قدر الجھاﺅ کا شکار رہے کہ نواز شریف، زرداری، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور (ن) لیگ سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا تھا اگر غور سے دیکھا بھی جائے تو سیاست انہی کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ عمران خان نووارد تو نہیں لیکن 19 سال کی کڑی جدوجہد کے بعد بالآخر اُنہیں ایک مقام حاصل ہو ہی گیا۔ آج وہ نہ صرف صف اول کے سیاست دان ہیں بلکہ اصل حزب اختلاف بھی ہیں۔ جوشِ خطابت یا جوشِ تحریر میں اکثر لوگ بہک جاتے ہیں، میں بھی اُن ہی میں سے ہوں، کوئی آسمان سے اُترا ہوا نہیں، ادنیٰ سا آدمی ہوں جسے لوگ صحافی کہتے ہیں۔ میں نے تو خود کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا۔ اب بھی طفل مکتب ہوں اور شاید ساری عمر رہوں۔ صحافت بہت ہی اعلیٰ اور ارفع پیشہ ہے، جسے دُنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہاں دولت کی نہیں آپ کے ضمیر کی پہچان ہوتی ہے۔ کئی دنوں سے لفافہ جرنلزم کی اصطلاح کا بہت شوروغوغا ہے، بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ جب سے پاکستان میں ٹیلی وژن انقلاب آیا ہے، بے تحاشا ایسے لوگوں نے ٹی وی پر قبضہ جمالیا ، جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں، لفاظی کرنے کو تیز ترین زبان بھی ہے لیکن عقل کی کمی ہے، سوچ و فکر سے دُور کا بھی واسطہ نہیں لیکن وہ اپنی جگہ براجمان ہیں، اس سے انکار یا فرار ممکن نہیں۔
عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں، اُن کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی تھی۔ 1992ء میں کرکٹ ورلڈکپ جیت کر وہ تاریخ میں امر ہوگئے۔ دُنیا لاکھ اُن پر کیچڑ اُچھالے لیکن مستقبل کا مورخ صحیح فیصلے لکھے گا۔ تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے جس طرح اپنی پارٹی کی مہم چلائی اور پھر کامیابی کے جھنڈے گاڑے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تمام تر مخالفت کے باوجود تحریکِ انصاف تیسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری ۔صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی سے مل کر حکومت بنائی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنی کامیابیوں کو سربلندیوں کی طرف لے جاتے، اُنہوں نے ایسی فاش غلطیاں کیں کہ پارٹی بجائے بلندیوں کے تنزلی کی جانب جاتی نظر آئی۔ آج بھی اُن کی مقبولیت کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن عزم و ہمت کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔ عمران ہمیشہ سے ہی اعلیٰ ہمت کا مظہر رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے 1992 ءکرکٹ ورلڈکپ کی ابتدا ء میں ہم بُری طرح ناکام ہوئے تھے لیکن جب میں نے عمران (جو اُس وقت پاکستان ٹیم کی قیادت کررہے تھے) سے سوال کیا کہ ہم کہاں کھڑے ہوں گے تو جہاں اُنہوں نے ٹیم کی عدم دلچسپی کی شکایت کی وہیں صرف اتنا کہا کہ میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔ آخری دم تک لڑوں گا۔ اﷲ تعالیٰ پر اور اپنی قسمت پر یقین ہے۔ قدرت اتنی ظالم نہیں کہ ہماری کاوشوں کو بے قدر کردے۔ ہمارا عزم اونچا ہے، ہمت نہیں ہاریں گے، کوشش جاری رہے گی، اکثر ٹیمیں یا افواج جنگوں کے درمیان پسپائی پر مجبور ہوجاتی ہیں لیکن ایک محاذ پر شکست کا مطلب جنگ ہارنا نہیں کہلاتا۔ ہم اگر کسی محاذ پر ہار بھی جائیں تو پھر بھی آخری فتح کی کوششیں جاری رکھیں گے اور قدرت اس کا صلہ ضرور دیتی ہے۔ میں اُس وقت حیران رہ گیا، جب انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے میچ میں انگلینڈ کو فتح ملی۔ ہمارے پوائنٹ زیادہ تھے، ہم جیت کے قریب اچانک ہی پہنچ گئے پھر جب ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو شکست دی تو پوائنٹ ٹیبل پر اوپر ہونے کی وجہ سے سیمی فائنل میں پہنچ گئے۔ نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں میزبان کو سیمی فائنل میں شکست دے کر انگلینڈ سے فائنل میں مقابلہ کیا اور آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں بالآخر فاتح بن کر اُبھرے، ورلڈکپ ہمارا تھا۔
اس قصّے کو لکھنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ قارئین کو یہ باور کرادیا جائے کہ انسان اپنی عالی ہمتی سے شکست کو فتح میں بدل دیتا ہے۔ جنگ و جدل کی تاریخ ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے، جہاں کوئی مردِ میدان یا کسی ملک کی فوج شکست در شکست کے باوجود بھی، آخری معرکہ جیت کر رہی، میدان اُسی کے ہاتھ رہا۔ عمران نے 19 سال خاردار سیاست میں دھکے کھائے لیکن ہمت نہیں ہاری، آج اُن کا طوطی بولتا ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں، میرا ایمان اور دل گواہی دیتا ہے کہ یہ صرف عمران ہی تھے جو تن تنہا نواز شریف کے سامنے ڈٹے رہے بالآخر انہوں نے وزیراعظم جیسے اعلیٰ منصب پر براجمان شخص کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ قانونی جنگ ابھی جاری ہے۔نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن عمران نے (ن) لیگ اور اُس کے قائد نواز شریف کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا۔ کیا اتنا کافی نہیں کہ عمران نے شکست قبول نہیں کی آخرکار اپنے سب سے بڑے حریف کو منجدھار میں لاکھڑا کیا۔ پاناما لیکس میں دِکھائی جانے والی دولت نواز شریف کی ہو یا اُن کے صاحبزادوں یا صاحبزادی کی، سپریم کورٹ کے سامنے فیصلے کی منتظر ہے۔ یہی عمران کی سب سے بڑی کامیابی ہے، آدھی جیت تو اُن کی ہو ہی چکی ہے، جو کچھ اُن کے ہاتھ میں تھا وہ اُنہوں نے بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد میں کر دکھایا، نتیجہ اب باقی ہے۔ بندہ صرف کوشش ہی کرتا ہے، اس میں عمران سرخرو ہوکر اُبھرے۔ پوری (ن) لیگ، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، طلال چوہدری یا وزیر مملکت محمد زبیر کا ہدف اس وقت کئی مہینوں سے صرف عمران ہیں۔ کیا یہی اُن کی مقبولیت اور عالی ہمتی کی دلیل نہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو ہتھیار ڈال دیے۔ زرداری اور بلاول نے نواز شریف کے خلاف علم مخالفت بلند کیا لیکن اب معلوم ہوا کہ زرداری پارلیمانی سیاست سے علیحدہ ہوگئے۔ بلاول اکیلے کہاں تک لڑیں گے، یہ دیکھنا باقی ہے۔
جماعت اسلامی بھی صف آرا ہے لیکن اُس کے امیر سراج الحق کوئی بڑا کارنامہ نہیں کرسکے، صرف تقریر اور ایک آدھ جلسہ جلوس اور بس۔ عمران ناصرف سپریم کورٹ میں بھرپور جنگ لڑرہے ہیں بلکہ جلسے جلوسوں سے بھی جابجا خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔ اُنہوں نے دو طرفہ حملے کی تدبیر اپنائی ہے، جس کے نتائج بھی ایک نہ ایک دن ضرور اُن کے حق میں آئیں گے۔ قوم خاص طور پر نوجوان طبقہ، جو 2013 ءمیں اُن کا دیوانہ تھا تھوڑا مایوس ضرور ہوا ہے لیکن اب بھی ہر ایک کی زبان پر ایک فقرہ ضرور ہے کہ عمران نے کرپشن کے خلاف بھرپور طریقے سے ناصرف مقابلہ کیا بلکہ قومی شعور بھی بیدار کیا کہ ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنا پڑے گا۔ ایک بات کا ضرور عمران کو خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ سیاست کے اصولوں کو سمجھیں اور اس کے داﺅپیچ سے آشنا ہوکر پھونک پھونک کے قدم اُٹھائیں۔ سیاست جہاں انسان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے، وہیں وہ آپ کی غلطیوں کی سزا بھی دیتی ہے۔ عمران نے غلطیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے، اب انہیں سنبھل کر چلنا چاہیے، اب غلطی کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ انہیں اس کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔ اگر انہیں کچھ پسپائی ہوئی ہے تو دوبارہ اُبھرنے میں دیر بھی نہیں لگتی، ہمتِ مرداں مددِ خدا۔
******

شیئر: