Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے پرفضامقام ’’شفاء ‘‘ میں سیاحتی خدمت گار’’ پاکستانی‘‘

پاکستان بہت یاد آتا ہے،مراد علی، گھوڑے اور اونٹ کے 10ریال ۔موٹر سائیکل کے15ریال اور بگھی کے20ریال کرایہ لیتے ہیں،احمد یار خان

 

رپورٹ وتصاویر:مصطفی حبیب صدیقی

- - - - - - - - - -  - - -  - - -

اس سے پہلے ہم آپ کو طائف سے30کلومیٹر اندر کھیتوں میں لے گئے جہاں ہمارے پاکستانی کسان مملکت کے کھیتوں کو سرسبزوشادا ب کررہے تھے ۔اس مرتبہ آئیے آپ کو طائف کی پہاڑیوں سے25کلومیٹر بلندی پر شفاء کی سیر کراتے ہیں۔تفریح مقام کے طور پر معروف سعودی عرب کا یہ علا قہ پاکستان کے مری اور ایوبیہ جیسا ہے۔اونٹ ،گھوڑے اور اسکوٹر کے علاوہ چیئرلفٹ اور جھولے بھی موجود ہیں جبکہ اہم ترین یعنی سردی سے بچانے کیلئے جگہ جگہ قہوہ بھی دستیاب ہے۔ شفاء پہنچے تو ہماری ملاقات سب سے پہلے قہوہ فروخت کرنے والے مراد سے ہوئی،پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والا مراد نہایت معصوم اور سادہ معلوم ہوا۔سلام دعا کے بعد بات چیت شروع کی تو کہنے لگا کہ جناب !بچوں کے خاطر یہاں رات بھر سردی میں بیٹھ کر محنت مزدوری کرتے ہیں۔پاکستان بہت یاد آتا ہے مگر کیاکریں ہماری حکومت کچھ کرتی تو ہم یہاں تو نہ ہوتے۔

گھر والوں سے بڑی مشکل سے بات ہوتی ہے کیونکہ نیٹ نہیں چلتا۔فون پر بات ہوتی ہے مگر بڑی مہنگی پڑتی ہے۔یہاں کافی سکون ہے۔2سال بعد پاکستان جائوں گا لیکن شاید اب واپس نہ آئوں۔ایک سوال کے جواب میں مراد نے کہا کہ اگر پاکستان میں اچھی حکومت ہوتی تو دنیا میں بھی ہماری عزت ہوتی جبکہ ہم پردیس میںکیوں رہتے ۔ہم اپنے ملک جاکر ہی کمائیں۔ مراد نے بتایا کہ شفاء میں پاکستانی وہندوستانی بڑی تعداد میں آتے ہیں تاہم آج کل لوگوں کی آمد کم ہوگئی ہے ۔جمعہ کو تعداد کچھ زیادہ ہوجاتی ہے۔ مراد نے شکوہ کیا کہ ہم پر کوئی مشکل آجائے تو کوئی ہماری نہیں سنتا ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے سفارتخانے اور قونصلیٹ تک ہمارے مدد نہیں کرتے۔پاکستان میں ہمارے پاس سب کچھ ہے۔

پاکستان میں امن ہوجائے اور روزگار ملے تو ہم چاہیں گے کہ واپس چلے جائیں۔ ٍ مراد نے ہمیں قہوہ بھی پلایا جو کافی لذیذ تھا ۔مراد سے گفتگو کے بعد ہم آگے چلے تو ملاقات ایک گروپ سے ہوگئی جو سردی میں ہاتھ تاپ رہا تھا۔یہ سارے گھوڑے اور اونٹ والے یا موٹرسائیکل والے تھے۔احمد یارخان صاحب یہاں سب سے پرانے تھے انہیں تقریباً14سال ہوچکے تھے جبکہ باقی بھی 3سے8سال سے سعودی عرب میں تھے۔ احمد یار خان کا تعلق پنجا ب کے شہر منڈی بہائوالدین ہے ۔احمد یار خان نے سعودی عرب کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں بہت خوش ہیں۔بہت سکون ہے ۔

پاکستان میں بچے اچھا کھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کفیل ساری ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔ہم گھوڑے ،بگھی چلاتے ہیں۔گھوڑے اور اونٹ کے 10ریال ۔موٹر سائیکل کے15ریال اور بھگی کے20ریال کرایہ لیتے ہیں۔احمد یار بھی پاکستان کے حالات سے نالاں تھے کہنے لگے کہ پاکستان میں تحفظ نہیں۔عدلیہ تک انصاف نہیں کرتی۔کاروبار نہیں کرسکتے۔ڈاکو لوٹتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی پولیس بھی ڈکیت ہے۔اس ملک میں بہت سکون ہے۔امن ہے۔دل کو خوشی ملتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ اپنا دیس کس کو اچھا نہیں لگتا ۔ہمارا دیس بھی بہت اچھا ہے مگر وہاں کوئی تحفظ نہیں۔یہاںبچوں کیلئے روزی کماتے ہیں۔بچے اچھا کھاتے ہیں خوشی ہوتی ہے۔یہاں سب سے بڑی سعادت حج اور عمرہ نصیب ہوتا ہے روضہ رسول پر حاضری دیتے ہیں۔احمد یار نے کہا کہ شفاء وادی میں بدو لوگ ہیں۔یہ زیادہ تر ابوسفیان کی اولاد ہیں ۔یہ بدو ہوکر اچھے اور مخلص ہیں۔میں آپ کو ایک واقعہ سنائوں ۔ہمارا ایک دوست بیمار ہوگیا۔ہمار ے قونصلیٹ نے تو کچھ نہیں کیا ۔ہمارے کفیل نے دوست کو اسپتال میں داخل کرایا اور علاج کرایا مگر جب وہ اسپتال سے واپس جانے لگا تو بل ہزار وں ریال تھا مگر اس کے پاس پیسہ نہیں تھا پھر ایک سعودی آیا اور اس نے پورا بل ادا کردیا۔ جس کے بعد اپنے دوست کو لاہور بھیج دیا جہاں اس کا علاج جاری ہے۔احمد یار نے دردبھرے لہجے میں بتایا کہ ہم پاکستان میں بھی بہت کماتے ہیں۔میرے والد کی 7ایکٹر زمین ایک ہے اور2مربعہ الگ ہے۔

ہمارے پاس گاڑیاں اور زرعی آلات سب کچھ تھا ۔کاشت کار تھے ۔ مگروہاںہمیں کسی محکمے نے تحفظ نہیں دیا۔ہمارے کام میں رکاوٹ آتی رہتی تھی۔کبھی ڈاکو ،کبھی سرکار،ہمیں کسی نے تحفظ نہیںدیا۔ میں نے صحیح راستے کیلئے جیلیں تک جھیلیں مگر کچھ نہ بدلا تو یہاں آگیا۔ہم یہاں اپنے خاندان کو سنبھال سکتے ہیں مگر ابھی یہاں کے حالات بھی غیریقینی ہیں اس لئے کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے۔ ہماری گفتگو انفرادی کے بجائے گروپ ڈسکشن کی شکل میں شروع ہوچکی تھی اس لئے بعض اوقات سوال ایک ہوتا جواب 4آتے جیسے بچپن یاد آتا ہے سوال کیا تو جواب درمیان میں بیٹھے گھوڑے والے سعید نے دیا کہ کہنے لگا بچپن بہت یاد آتا ہے۔ہر انسان کو یاد آتا ہے۔ہمیں بھی گلی محلہ یاد آتے ہی۔شرارتیں یاد آتی ہیں۔ مگر کیاکریں ۔وقت نے سب کوکچھ سکھادیا۔

روزی کیلئے یہاں آگئے ۔ہمیں اللہ بہت کچھ دے رہا ہے ۔مگر خاندان سے دور رہ کر وہ سکون نہیں جو ہونا چاہئے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنا ہم یہاں کمالیتے ہیں ۔وہاں نہیں کماسکتے تھے۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والا محمد جمان کملہ ضلع کارہنے والا ہے ۔اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔11سال سے مملکت میں ہے ۔ کہنے لگا کہ 3سال بعد چھٹی پر جاتا ہوں۔بیوی اوربچے بہت یاد کرتے ہیں مگر اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ ہر سال جائیں ۔بچے کہتے ہیں بابا آجائو ،بیوی بھی بلاتی ہے کہتی ہے کہ واپس آجائو یہیں کچھ کرلینا ساتھ تو رہیں گے مگر میں کہتا ہوں کہ کچھ کمالوں پھر آئو ں گا وہاں تو حالات خراب ہیں۔عوامی لیگ کے کارندے بھتہ لیتے ہیں نہ دینے پر گولی تک مار دیتے ہیں۔یہاں بھی بڑی مشکل ہے۔بنگلہ دیش 10ہزار روپے بھی نہیں بھیج پاتے۔ 800ریال تنخواہ ہے۔کفیل ہی کھانا پینا،رہائش اور اقامہ دیتا ہے۔

شیئر: