Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلم ’دھک دھک‘ ایڈونچر کی شوقین خواتین کی کہانی

آئی ایم ڈی بی پر فلم کی ریٹنگ 10 میں سے چھ اعشاریہ تین ہے۔ (فوٹو: فلم دھک دھک)
انگریزی کے ایک مقولے کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’سارے ایڈونچرز اور تفریح ہمیشہ لڑکوں کے لیے ہی کیوں ہوتی ہے؟‘ اس بات کا جواب تو پدرسری معاشرے کے آغاز سے لے کر آج کے ’عورت مارچ‘ کے ذریعے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل کے معاشرے میں لڑکا ہونا لڑکی ہونے سے کہیں زیادہ سہل ہے۔
فلم ’دھک دھک‘ ایسے ہی معاشرتی رویوں کی عکاس ہے جس میں عورت کی ان دیکھی اور ان کہی جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔
فلم ’دھک دھک‘ چار خواتین کی کہانی ہے جو نئی دہلی سے خاردنگلا کے مقام تک موٹر سائیکلوں پر جانے کا پروگرام بناتی ہیں۔ خاردنگلا کا مقام انڈیا میں سطح سمندر سے 18 ہزار فٹ بلند ہے اور ہر موٹر سائیکل ایڈونچر پسند کرنے والے کا خواب سمجھا جاتا ہے۔
جو چیز اس سفر کو دلچسپ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی یہ چار خواتین کس طرح مشترکہ بنیادوں پر بندھ جاتی ہیں اور ایک کے بعد ایک رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے خود کو اور اپنی طاقتوں کو دریافت کرتی ہیں۔ سفر کے دوران وہ ہنستی ہیں، لطف اندوز ہوتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں، دوبارہ اٹھتی ہیں اور اپنے خواب کی طرف بھرپور طریقے سے رواں دواں رہتی ہیں۔
فلم کی کہانی سکائے (فاطمہ ثنا شیخ) کے کردار سے شروع ہوتی ہے جو کہ ایک یوٹیوبر اور وی لاگر ہے۔ وہ اپنے ماضی میں پیش آنے والے ایک آن لائن سکینڈل کی وجہ سے پریشان ہے اور کسی نئی کہانی کو فلمانے کی تلاش میں ہے۔ اسی تلاش کے دوران اس کی ملاقات ماہی (رتنا پاٹھک شاہ) سے ہوتی ہے جو ایک ’نانی اماں‘ کا کردار ہے۔ لوگوں کے آسرے اور آمد و رفت کی محتاجی کو ختم کرنے کے لیے ماہی نے موٹر سائیکل چلانا سیکھ لی ہے۔ یہ موٹر سائیکل وہ ایک قرعہ اندازی میں بہ طور انعام حاصل کرتی ہیں۔
سکائی اور ماہی کی ملاقات ایک ورکشاپ میں عظمیٰ (دیا مرزا) سے ہوتی ہے۔ عظمیٰ ایک برقع پوش گھریلو خاتون لیکن بہترین موٹر سائیکل مکینک ہیں۔ محبت کی شادی کرنے کے بعد خاوند کے روایتی شوہر کے روپ میں بدل جانے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ایک بیٹی بھی ہے چنانچہ اس کے لیے زندگی کی راہ ہموار کرنے کو وہ سکائی اور ماہی کے اس پلان میں شریک ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں۔
چوتھے کردار کا نام منجری (سنجنا سانگھی) ہے جن کی ارینج میرج کچھ ہی عرصے میں ہونے والی ہے لہذا آخری مرتبہ اپنی مرضی سے زندگی جینے کے لیے وہ اس پلان میں شامل ہونے کی ہامی بھرتی ہیں جو وہ ایک آن لائن اشتہار میں دیکھتی ہیں۔ سفر شروع ہوتا ہے اور اونچ نیچ چلتی رہتی ہے لیکن ایک مقام پر دریا عبور کرتے ہوئے پانی کا ریلا آتا ہے۔ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں جس کے بعد ایک جذبات کا ریلا بھی آتا ہے اور سب پلان برباد ہوتا نظر آنے لگتا ہے۔ یہ معاملہ کیسے سلجھتا ہے، اس کے لیے فلم ملاحظہ فرمائیں۔

فلم نیٹ فلکس پر بھی دستیاب ہے۔  (فوٹو: فلم دھک دھک)

اس فلم کے ہدایت کار ترن دوڈیجا ہیں جو اس سے پہلے ’فریڈی‘ اور ’گھن چکر‘ جیسی فلمیں بنا چکے ہیں۔ اس فلم کو لکھنے میں بھی ان کا حصہ ہے اور مشہور ہدایت کار راج کمار ہیرانی سے بھی اس فلم کے سکرپٹ میں مدد لی گئی ہے جس کا شکریہ فلم کے شروع ہونے سے پہلے ہی ادا کر دیا جاتا ہے۔
ہدایت کار ترن دوڈیجا نے فلم میں دکھایا ہے کہ خواتین کی خواہشات کو دبانے کے بجائے ان کو زندگی میں برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں تو معاشرے میں خوشگوار بدلاؤ لایا جا سکتا ہے۔
فلم کے گیت اور پس پردہ موسیقی اچھی ہے۔ پہاڑوں اور سبزہ زاروں کی منظر کشی دیدہ زیب ہے اور سینیماٹوگرافی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

فلم میں اداکارہ دیا مرزا نے موٹر مکینک کا کردار ادا کیا ہے۔ (فوٹو: فلم دھک دھک)

آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے چھ اعشاریہ تین ہے جب کہ ٹائمز آف انڈیا اور بیشتر تنقید نگاروں کی طرف سے اس فلم کو پانچ میں سے چار سٹارز دیے جا رہے ہیں۔ یہ فلم رواں سال 13 اکتوبر کو ریلیز کی گئی تھی لیکن اب اسے نیٹ فلکس پر بھی ریلیز کر دیا گیا ہے اور پاکستان میں یہ پہلے نمبر پر دیکھی جا رہی ہے۔
فلم میں بہت جگہ ان چاروں خواتین کو مشکلات میں گھرا دکھایا گیا ہے لیکن ہر بار وہ اس کا کوئی حل ضرور ڈھونڈ نکالتی ہیں کیونکہ منجری سے ایک بار راستے میں ملنے والے ٹرک ڈرائیور نے کہا تھا کہ ’اپنی مشکل میں پریشان ہونا اور دوسرے کی مشکل میں اسے مشورہ دینا انسان کی فطرت ہے۔ اگر مشکل آئے تو اپنے پڑوسی بن جاؤ، مسئلے کا حل نکال لو گے۔‘

شیئر: