Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل امداد کو ’سودے بازی‘ کے لیے استعمال نہ کرے: جو بائیڈن

غزہ میں پچھلے پانچ ماہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ امداد کو ’سودے بازی‘ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا اور مطالبہ کیا کہ غزہ میں خونریزی روکنے لیے حماس کے ساتھ فوری اور عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کرے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن میں سٹیٹ آف دی یونین کے سالانہ خطاب میں جو بائیڈن نے اسرائیلی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’انسانی بنیادوں پر امداد ایک ثانوی شے ہے نہ ہی سودے بازی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ معصوم لوگوں کی زندگیاں بچانا ترجیح ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے ایک بار پھر دوہرایا کہ ’اسرائیل سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں حملے کا جواز رکھتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’عسکریت پسند یرغمالیوں کو رہا کر کے آج ہی اس تنازع کو ختم کر سکتے ہیں۔‘
قبل ازیں حماس کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ اس کا وفد قاہرہ سے روانہ ہو گیا ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت اگلے ہفتے دوبارہ شروع ہو گی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حماس کے بیان کے بعد اس بات کے امکانات ختم ہو گئے ہیں کہ ثالث مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان سے قبل کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔
 مصری حکام نے قبل ازیں بتایا تھا کہ حماس کی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار عمل کے مطالبے کے بعد مذاکرات مشکلات کا شکار ہوئے، تاہم رمضان سے قبل پھر بھی کسی نتیجے پر پہنچنے کا امکان رد نہیں کیا گیا تھا۔
رمضان کا مہینہ اتوار سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
حماس کے ترجمان جہاد طٰہٰ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے جنگ بندی کے حوالے سے ضمانت دینے، بے گھر ہونے والوں کی واپسی اور مقبوضہ علاقوں سے نکلنے سے انکار کیا ہے۔‘
تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’بات چیت ابھی جاری ہے اور اگلے ہفتے پھر سے شروع ہو گی۔‘
اس نئی صورت حال کے حوالے سے اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر کئی ہفتے سے کوشش کر رہے ہیں کہ چھ ہفتے پر مشتمل جنگ بندی ہو جائے اور غزہ میں یرغمال بنائے گئے 40 افراد کی رہائی اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں ممکن ہو جائے۔
مصری حکام کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے پہلے مرحلے میں معاہدے کی کلیدی شرائط پر اتفاق کا اظہار کیا گیا، تاہم وہ ایسی کمٹمنٹ چاہتی ہے جس سے مستقل جنگ بندی عمل میں آ سکے۔
دوسری جانب سے حماس نے کہا کہ تمام یرغمالیوں کو تب تک نہیں چھوڑا جائے گا جب تک اسرائیل فوج علاقے سے نہیں نکل جاتی۔
فلسطینی عسکریت پسندوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس 100 کے قریب یرغمالی موجود ہیں جو پچھلے برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے وقت پکڑے گئے تھے، جس کے بعد جنگ چھڑ گئی تھی۔
حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیل میں قید افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے جن میں عسکریت پسند بھی شامل ہیں کہ ان کویرغمالیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے۔
اسرائیل نے عوامی سطح پر ایسے مطالبات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد حماس کو تباہ کرنے کے لیے دوبارہ کارروائی کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
مصری عہدیدار کے مطابق اسرائیل مذاکرات کا دائرہ محدود رکھنا چاہتا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے باتیا کہ ثالث فریقین پر مؤقف میں نرمی پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
عام طور پر رمضان کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آتا رہا ہے جو کہ اتوار سے شروع ہونے کا امکان ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ چاند نظر آنے پر ہی ہوتا ہے۔

شیئر: