Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ جنگ بندی پر مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم

اسرائیل نے مذاکرات پر عوامی سطح پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فائل فوٹو گیٹی امیجز
قاہرہ میں حماس اور ثالثوں کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات منگل کو بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے جب کہ رمضان کے آغاز میں چند دن باقی ہیں۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق حماس کے سینیئر رہنما باسم نعیم نے بتایا ہے کہ عسکریت پسند گروپ نے دو روزہ بات چیت میں جنگ بندی کے معاہدے کی تجویز پیش کی اور وہ اسرائیلیوں کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
حماس کے رہنما نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کسی معاہدے تک نہیں پہنچنا چاہتے اور گیند اب امریکیوں کی کورٹ میں ہے کہ وہ معاہدے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
اسرائیل نے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات پر عوامی سطح پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
قبل ازیں ذرائع نے بتایا ہے کہ ’حماس نے زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کیا ہے اس لیے اسرائیل معاہدے پر نہیں آ رہا۔‘
حماس کے رہنما کا کہنا ہے کہ ’یہ مطالبہ جنگ بندی کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ یرغمالی جنگ زدہ علاقے میں مختلف مقامات پر الگ الگ گروپوں کے پاس ہیں۔‘
قاہرہ مذاکرات کو پہلی توسیع شدہ 40 روزہ جنگ بندی قرار دیا گیا تھا اور اس عارضی جنگ بندی کے دوران درجنوں یرغمالیوں کو رہا کیا جانا تھا۔
اس کے علاوہ آئندہ ہفتے رمضان کے آغاز سے قبل انسانی ساختہ قحط کے خاتمے کے لیے غزہ میں امداد سامان پہنچایا جائے گا۔

بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

مصر کے سکیورٹی ذرائع نے پیر کو بتایا تھا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ ابھی تک رابطے جاری ہیں تاکہ اسرائیلی وفد کی موجودگی کے بغیر مذاکرات جاری رکھے جا سکیں۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی اور جنگ بندی مذاکرات میں شامل امریکہ نے کہا ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے منظور شدہ معاہدہ پہلے ہی میز پر ہے، اب  یہ حماس پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔‘
دوسری جانب حماس مذاکرات حتمی فیصلے کے بغیر ختم ہونے کو اسرائیل کی جانب سے الزام تراشی کی کوشش قرار دیتی ہے۔
امریکہ نے اسرائیل سے غزہ میں انسانی تباہی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا ہے جہاں اسرائیل کے حملے میں 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ میں قحط کی صورتحال


امداد کی تقسیم میں اقوام متحدہ و دیگر امدادی ایجنسیوں ناکام ہیں۔  فائل فوٹو گیٹی امیجز

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امدادی رسد تیزی سے کم کر دی گئی تھی جس کے باعث قحط کی بڑھتی ہوئی صورتحال پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
جنگ زدہ علاقہ میں خوراک کی ترسیل منقطع ہے اور غزہ میں کام کرنے والے چند ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں وہاں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رفح کے العودہ کلینک کے بستر پر دھنسی ہوئی آنکھوں اور کمزور چہرے کے ساتھ پڑا چھوٹا بچہ پڑا احمد کنان امداد نہ ملنے کے باعث اپنا نصف وزن کھو چکا ہے۔
 احمد کنان کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی ہے اور تیمارداری میں مصروف اس کی خالہ اسرا کالاخ  کی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں آنے والے مشکل وقت سے بچائے۔

قحط کی صورتحال پورے علاقے کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ فائل فوٹو گیٹی امیجز

العودہ کلینک کی نرس دیا الشعر نے بتایا ہے کہ غذائی قلت کا شکار کمزور بچے غیرمعمولی تعداد میں داخل ہو رہے ہیں۔
غزہ کے شمال میں جہاں امدادی ایجنسیوں یا نیوز کیمروں کی پہنچ نہیں ہے، وہاں صورتحال انتہائی خراب ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں داخل 15 بچے غذائی قلت یا پانی کی کمی سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی کنارے پر موجود دو چوکیوں کے راستے غزہ کو مزید امداد دینے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔

ہسپتال میں داخل 15 بچے غذائی قلت یا پانی کی کمی سے ہلاک ہوئے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

اسرائیل الزام عائد کرتا ہے کہ وسیع پیمانے پر امداد کی تقسیم میں اقوام متحدہ و دیگر امدادی ایجنسیوں ناکام ہیں۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ امن و امان کی خرابی سے یہ ناممکن ہو گیا ہے اور یہ اسرائیل پر منحصر ہے جس کے فوجیوں نے غزہ کے مختلف مقامات پر دھاوا بول دیا ہے اور وہاں گشت کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کی علاقائی ڈائریکٹر ادیل خضر نے کہا ہے ’والدین اور ڈاکٹروں میں بے بسی اور مایوسی کا احساس بڑھ رہا ہے، جان بچانے والی امداد چند کلومیٹر کے فاصلے پر مگر پہنچ سے دور رکھی جا رہی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔‘

شیئر: