Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذاکرات کاروں کا رمضان سے پہلے غزہ میں جنگ بندی پر زور

حماس کے زیرانتظام غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
قاہرہ میں مذاکرات کاروں نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے اس اُمید پر کوششوں کو آگے بڑھایا کہ رمضان سے پہلے جنگ روک دی جائے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے روزے کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر لے۔
حماس کے زیرانتظام غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امدادی رسد تیزی سے کم کر دی گئی تھی جس کے باعث قحط کی بڑھتی ہوئی صورتحال پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
جنگ زدہ علاقہ میں خوراک کی ترسیل منقطع ہے اور غزہ میں کام کرنے والے چند ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں وہاں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ کے باشندے رفح میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے دفتر کے باہر آٹے کے تھیلے لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے انتظار کر رہے ہیں۔
غزہ کے بےگھر رہائشی محمد ابو عودہ نے بتایا کہ ’وہ جو آٹا فراہم کرتے ہیں وہ کافی نہیں ہے۔ وہ ہمیں چینی یا آٹے کے علاوہ کوئی اور چیز فراہم نہیں کر رہے۔‘
جو بائیڈن نے منگل کو حماس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کو قبول کر لے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔‘
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ مجوزہ معاہدہ جنگ کو کم از کم چھ ہفتوں کے لیے روک سکے گا۔ اس معاہدے کے تحت بیماروں، زخمیوں، بزرگوں اور خواتین کی رہائی ممکن ہو سکے گی اور انسانی امداد میں اضافے کی اجازت دی جائے گی۔‘
اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ حماس 100 یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔
فلسطینی اسلام پسند گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے معاہدے کے لیے مطلوبہ لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

شیئر: