Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھروں کے ملبے پر افطاری، شام میں جاری غمناک رمضان

مکانات کے کرائے زیادہ ہونے پر لوگ تباہ حال عمارات میں رہنے پر مجبور ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
دنیا کے دیگر خطوں کی طرح شمال مغربی شام میں بھی رمضان جاری ہے لیکن وہاں کے رہائشیوں کا افطار سب سے الگ ہے کیونکہ وہ ایسا گھروں کے بجائے ملبے پر کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق 13 برس سے جاری خانہ جنگی، شدید معاشی بحران اور گھروں کے کرایوں میں ہوشربا اضافے نے لوگوں کو ان مقامات کا رخ کرنے پر مجبور کیا ہے جو بموں سے تباہ ہو چکے ہیں۔
روایتی طور پر مسلمان رمضان کے مہینے کے دوران صبح سے سورج ڈوبنے تک کھانا پینا بند کرتے ہیں اور مغرب کے وقت روزہ کھولے ہیں، جس کے لیے کھانے پینے کا سامان استعمال کیا جاتا ہے لیکن شام میں صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
48 سالہ ابراہیم قاق نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس برس ماضی کے مقابلے میں زیادہ مشکلات ہیں کیونکہ ایسی عمارتوں میں بجلی اور پانی نہیں آ رہا، اس لیے ہم کھانا بنانے سے قاصر ہیں۔‘
ان کے مطابق ’فضائی حملوں سے متاثر ہونے والے اس گھر کی دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں اور ہمیں ڈر بھی رہتا ہے کہ کہیں گر نہ جائے، اگر ذرا سا زلزلہ آ جائے یا دھماکہ ہو جائے تو یہ گر سکتا ہے۔‘
ابراہیم قاق کو مارات النعمان شہر پانچ برس قبل چھوڑنا پڑا تھا اور شمال مغربی شام کے پناہ گزین کیمپ میں فیملی کے ہمراہ پہنچے تھے جبکہ اس کے بعد جیریکو شہر میں کرائے پر رہائش اختیار کی۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے امداد کی بندش کے بعد شام کے حالات مزید خراب ہوئے (فوٹو: عرب نیوز)

آٹھ ماہ قبل ان کے مکان کا کرایہ 25 ڈالر سے بڑھ کر 40 ڈالر ہوا جو ان کی استطاعت سے باہر تھا اس لیے انہوں نے کرائے کا مکان چھوڑ کر فضائی حملوں سے متاثرہ مکانوں میں سے ایک کا رخ کیا، جو خانہ جنگی والے مقامات کے قریب واقع ہیں۔
ابراہیم قاق اور ان کی فیملی کے سروں پر روز ہی بموں اور میزائلز کے خطرات منڈلاتے ہیں، تاہم اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ بے گھر ہونے والوں کے لیے پناہ گزین کیمپ میں واپس جانے کا آپشن مزید بدتر ہو گا کیونکہ خیموں میں رہنے والے موسموں کی سختیوں کا شکار رہتے ہیں اور انہیں شدید گرم اور سرد موسموں کا سامنا رہتا ہے۔
ان کی اہلیہ فاطمہ ام ذکریا کا کہنا تھا کہ ’ہم رمضان کی آمد پر پریشان تھے کیونکہ اس میں اخراجات بڑھ جاتے ہیں جن کو ہم افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں اور ہمارے پاس جتنے پیسے تھے وہ ہم کھو چکے ہیں۔‘
ان کے بقول ’رمضان کے دوران ہمیں اچھی جگہ پر رہنے اور کھانا بنانا پسند ہے لیکن اس جنگ نے ہم کو نڈھال کر دیا ہے۔‘
مسلسل بگڑتے معاشی حالات، انسانی المیوں اور خانہ جنگی کے اثرات نے مغربی شام کے نوجوانوں کو بھی اپنے خوابوں سے دور کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن میں ابراہیم قاق کے بچے بھی شامل ہیں۔

شام میں 13 برس سے جاری خانہ جنگی کے باعث شدید معاشی بحران اور انسانی المیوں نے جنم لیا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

20 سالہ عمر قاق نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’بے گھر ہونے کی وجہ سے مجھے سکول سے نکال دیا گیا اور میں نے گھر کے اخراجات اٹھانے کی غرض سے کنسٹرکشن کا کام شروع کیا۔‘
’میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا ہے لیکن جن حالات میں ہم رہ رہے ہیں ان میں اس کا امکان نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی فیملی کی خواہش ہے کہ مارات النعمان میں اپنے گھر واپس لوٹ سکیں اور اس انداز میں رمضان گزاریں جیسے جنگ کے پہلے اس کی خوشی منایا کرتے تھے۔
اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام فنڈز کی کمی کے باعث رواں سال کے آغاز میں شام کے عوام کے لیے امدادی کام بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا جس سے ایک ایسے ملک میں صورت حال مزید خراب ہوئی جہاں پہلے سے ہی لاکھوں کی تعدا میں لوگ خوراک سے محروم تھے۔
امدادی اداروں کے مطابق شمال مغربی شام میں تقریباً 60 لاکھ لوگ رہتے ہیں جن میں سے تقریباً 50 فیصد بے گھر ہیں۔

شیئر: