Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلانے پر گورنر اور صوبائی حکومت میں تنازع کیوں؟

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ گورنر کا اعلامیہ غیرآئینی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلانے کے معاملے پر صوبائی حکومت اور گورنر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے گورنر غلام علی نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس جمعے کے روز طلب کر لیا ہے جبکہ سپیکر نے اجلاس بلانے کی بجائے محکمہ قانون سے مشاورت کے لیے میٹنگ رکھ لی ہے۔
گورنر غلام علی نے 20 مارچ کو اعلامیہ جاری کر کے اسمبلی اجلاس 22 مارچ کو تین بجے طلب کیا۔ اعلامیے کے ذریعے گورنر نے کہا ہے کہ اجلاس میں خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص نشستوں پر نئے اراکین حلف اٹھائیں گے۔
گورنر نے سیکریٹری خیبرپختونخوا اسمبلی کو خط میں لکھا ہے کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن لیڈر کی استدعا پر طلب کیا گیا ہے۔ 
گورنر کے اسمبلی کا اجلاس بلانے پر خیبر پختونخوا حکومت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو غیرآئینی قرار دیا۔ صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے اپنے بیان میں کہا کہ گورنر نے پی ڈی ایم جماعتوں کی سہولت کاری کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئین کے مطابق گورنر صوبے کے وزیراعلٰی اور کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔‘
صوبائی وزیر قانون نے مزید بتایا کہ گورنر کا اعلامیہ غیرآئینی ہے جو صرف 16 اپوزیشن اراکین کے کہنے پر طلب کیا گیا ہے۔ ایسے اقدام سے جمہوری اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر نے گورنر کی ہدایت پر عمل کر کے اجلاس طلب کرنے کی بجائے محکمہ قانون سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
سپیکر کی ہدایت پر سیکریٹری اسمبلی نے خط لکھ کر اس معاملے کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے رہنمائی طلب کی ہے۔
اجلاس نہ بلانے کا جواز پیش کرنا ہو گا
پی ٹی آئی کے ترجمان ایڈووکیٹ معظم بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس معاملے میں قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں کیونکہ مخصوص نشستوں کا معاملہ متنازع ہے جو کہ حتمی طور پر طے ہونا باقی ہے اور اس کا اثر ایوان کی تکمیل پر ہو گا۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’گورنر نے جو اجلاس کا دن مقرر کیا، اسی دوران سپیکر کو قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے جواز کے ساتھ جواب دینا پڑے گا بصورت دیگر اگر معاملہ عدالت تک گیا تو پھر وہاں فیصلہ ہو گا۔‘

سپیکر کی ہدایت پر سیکریٹری اسمبلی نے خط لکھ کر اس معاملے کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے رہنمائی طلب کی ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

مبصرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں حکومت بنتے ہی اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔
 سینیئر صحافی محمود جان بابر کے مطابق ’سیاسی جماعتیں جمہوریت کی خدمت کی بجائے سیاست کر رہی ہیں۔ قوم کے وسائل تنازعات میں استعمال ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے اب پانچ سال اسی طرح گزریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مخصوص نشستوں والے معاملے کو اتنا الجھا دیا گیا ہے حالانکہ اس کے لیے قانونی راستہ موجود ہے۔ تمام جماعتوں کو چاہیے کہ وہ نظام کو آگے بڑھنے دیں۔ ایوان میں وقت گزاری کی بجائے ایوان میں عوام کی نمائندگی کریں۔‘
سینیئر پارلیمانی رپورٹر ظفر اقبال کے مطابق ’سینیٹ الیکشن سے پہلے مخصوص نشستسوں پر اراکین کی حلف برداری ہونا ضروری ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہوئی تو نقصان اپوزیشن جماعتوں کو ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گورنر سوچ سمجھ کر قانونی چال چل رہے ہیں۔ اگر سپیکر نے اسمبلی اجلاس نہ بلایا تو اپوزیشن جماعتیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جائیں گی۔ دوسری جانب یہ امکان ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین گورنر غلام علی کے خلاف عدالت سے رجوع کریں۔‘ 
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی گذشتہ حکومت میں بھی گورنر غلام علی اور صوبائی حکومت کے درمیان ہیلی کاپٹر بِل کے معاملے تنازع پیدا ہوا تھا۔
 

شیئر: