Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خان کا تازہ بیان، بندش کا کارن یا رہائی کا سامان؟ اجمل جامی کا کالم

سابق وزیراعظم عمران خان کو کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
علی امین گنڈا پور کابینہ پشاور میں کور کے عسکری سربراہ کے ہاں ٹھنڈے ٹھار مشروبات اور اعلٰی النسل عربی کھجوروں و روایتی پختون کھابہ جات سے مزین  افطار پر مدعو تھی، اس سے پہلے فواد چوہدری کو رہائی کا پروانہ ملا، اس سے بھی کچھ پہلے نو مئی کے کھاتے میں کچھ افراد جڑواں شہروں سے رہا ہوئے، تاثر یہی تھا کہ غالباً ڈیل یا ڈھیل کی آڑ میں واقعی بنیادی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
لیکن پھر اچانک اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے عمران خان کی گفتگو نے سیاسی منظر نامہ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس گفتگو کی خاص بات یہ ہے کہ اسے من و عن پی ٹی آئی آفیشنل ہینڈل سے ایکس پر پوسٹ کیا گیا۔ گویا مقصود تھا کہ اس بیان کو مصدقہ سمجھا جائے۔
عموماً صحافیوں سے ہوئی ایسی غیر رسمی یا رسمی گفتگو اس طرح آفیشل ہینڈلز پر اس شد و مد سے پوسٹ نہیں کی جاتی۔ اندر کی جانکاری تو یہ بھی ہے کہ ایسی ہی گفتگو کپتان نے چند روز پہلے اپنی جماعت کے وکلا رہنماؤں سے بھی کر چکے تھے لیکن وہ باہر آ کر میڈیا کے سامنے لب کشائی سے گریزاں رہے۔ جبھی تو پی ٹی آئی آفیشل ہینڈل سے یہ بیانات  شائع ہوئے یا کرنا پڑے۔
عمران خان کے بیان میں کیا تھا؟ کس کے لیے کیا پیغام تھا؟ انہیں یہ اہم ترین بیان کیوں دینا پڑا؟ اس بیان سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دستیاب پارٹی قیادت کہاں تک اور کب تک تازہ فرمودات کپتان پر پہرہ دے پائی گی؟ اور یہ کہ جوابی رد عمل کیا ہو گا؟ کیسا ہو گا؟ یہ ہیں وہ سوال جو خان صاحب کے تازہ ارشاد کے بعد فطری طور پر جنم لے رہے ہیں۔
بیان کے بعد تین اقسام کی تھیوریاں مارکیٹ میں آئیں؛ کپتان جہاں کھڑا تھا آج بھی وہیں ہے،  ڈیل اور ڈھیل کی باتوں میں حقیقت نہیں تھی، مزید دباؤ اور سخت گیر موقف اپناتے ہوئے کپتان مخالفین کو اپنی پچ پر لا کر کھلانا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
تاہم اسی بیان کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب خود ہی بتلا رہے ہیں کہ ان کی جماعت سے کچھ لوگ مقتدرہ سے رابطے میں ہیں اور انہیں اس کا علم ہے۔
اسی بیان میں میں مزید وہ فرماتے ہیں کہ وہ سب سے بات چیت کو تیار ہیں، مثال پیش کرتے ہوئے جنرل (ر) باجوہ سے ایوان صدر میں ہوئی ملاقاتوں کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ مینڈیٹ اور مقبولیت کا بھر پور ادراک کرتے ہوئے وہ اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہونے کا اعلان بھی فرماتے ہیں۔

عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سب سے بات چیت کو تیار ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

تو پھر وہ فوجی قیادت کا ذکر خیر فرماتے ہوئے انہیں دوشی قرار دیتے ہوئے، انہیں اپنے اور اپنی اہلیہ کے کیسز کا براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دوسرے ہی سانس میں باجوہ سرکار سے ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کس سے بات چیت کے لیے تیار ہونے کا عزم کر رہے ہیں؟ 
یہ ہے اس بیان کی اصل گتھی جو سلجھنے کا نام نہیں لے رہی، یہ گھتی سلجھنے کی بجائے انتہائی خوفناک تھیوریوں کو بھی جنم دیتی ہے جن کا تعلق عام فہم اور مارکیٹ میں دستیاب قیاس آرائیوں سے ہرگز ہرگز نہیں۔
اسی بیان میں وہ کور کمانڈر ہاؤس میں ہوئی پرلطف افطار کا بھی دفاع کرتے ہیں اور ساتھ ہی پارٹی میں از سر نو فیلڈ پوزیشن بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ یعنی وکلا رہنماؤں کی بجائے سیاسی چہروں کی واپسی۔
حاصل غزل کہانی تو بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقبولیت اور مینڈیٹ کے بعد کپتان نے سیاسی طور پر پارٹی کی باگ دوڑ آزمائے ہوئے اور امتحان میں پاس رہنماؤں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
محتاط اور نرم گو وکلا کی بجائے وہ فاسٹ بولرز کے ذریعے پارٹی کا اٹیک بدلنا چاہ رہے ہیں۔ عمران خان اسٹبلشمبٹ کا نام لے کر اپنی پوزیشن واضح کرر ہے ہیں لیکن بات چیت کے لیے تیاری کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔ مقصد اس الجھن کا فقط ایک، یعنی میری پوزیشن اور مقبولیت تسلیم کی جائے گی تو ہی دروازے کھلیں گے وگرنہ ہم وہیں کے وہیں  ڈٹے رہیں گے۔
بظاہر تو اس بیان کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جناب ہم سیاستدانوں سے تو بات نہیں کریں گے، کریں گے تو وہیں کریں گے جہاں ہوا کرتی تھی۔
اگر مگر کی اس بحث میں تیقن کے ساتھ چند نامور تجزیہ کاروں کی رائے البتہ یہ ہے کہ جلد عمران خان رہا ہونے والے ہیں جس کے بعد سیاسی منظر نامے میں قدرے مختلف تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

عمران خان اڈیالہ جیل اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بنی گالہ میں نظر بند ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس بیچ کچھ کا یہ خدشہ ہے کہ ان کی رہائی ان کے لیے خطرے کا بھی باعث ہو سکتی ہے۔ رد عمل میں دستیاب معلومات بھی دلچسپ اور معنی خیز ہیں، یعنی نو مئی ’لٹمس ٹیسٹ‘ مانا گیا ہے، مذمت، معذرت اور دوبارہ یہ سب نہ دہرانے کا عزم ہو تو بات ہو سکتی ہے وگرنہ یہ مدعا ریڈ لائن ہی رہے گا۔
تو صاحب! مسئلہ اپنی اپنی پوزیشن کا ہے، خان مقبولیت کی بنیاد پر جو پوزیشن لے چکے وہاں سے پیچھے ہٹنا یا معذرت کرنا ان کے لیے سیاسی طور پر ہانیکارک ہوسکتا ہے اور اس کا ادراک انہیں تجزیہ کاروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
دوسری جانب اگر نو مئی پر سمجھوتہ کر لیا جائے تو ادارے کی ساکھ اور وقار پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ جنگ بیانات کی نہیں، مفاہمت کی نہیں، آگے بڑھنے کی نہیں، رستہ نکالنے کی نہیں بلکہ پوزیشنوں سے اک دوجے کو نیچے لانے کی جنگ ہے۔
خاکسار کے سوتر البتہ یہ بتلاتے ہیں کہ فوری ریلیف کا امکان مشکل ہے، جناب خان صاحب کی زندگی کی حفاظت ریاست کے لیے بڑا چیلنج ہے، ریاست اور سرکار اس مدعے پر پہلو تہی کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی لہذا انہیں خراش تک نہیں آنے دی جائے گی۔ اسی لیے عرض  ہے کہ خدشات پر مبنی تھیوریوں پر کان دھرنے سے گریز کریں۔
اصل المیہ البتہ دستیاب قیادت کے لیے ہے، وہ میڈیا پر جناب خان کے بیان کا دفاع انہی الفاظ میں کر پائے گی جو آفیشل ہینڈل پر درج ہیں؟

شیئر: